تشریح:
(1) ایک دوسری حدیث میں ان فاقہ کش صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف دوسرے انداز سے کی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس تین شخص آئے، انہوں نے کہا: اے ابو محمد! ہمارے پاس کچھ بھی نہیں، کوئی خرچہ ہے نہ سواری اور نہ سازوسامان ہی۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم کیا چاہتے ہو؟ اگر تم کچھ مال چاہتے ہو تو ہمارے پاس پھر آنا، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے جو میسر فرمایا وہ ہم تمہیں عطا کریں گے اور اگر تم چاہو تو ہم تمہارا معاملہ حاکم وقت سے ذکر کر دیں گے؟ اگر تم چاہو تو صبر کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مہاجر فقراء قیامت کے دن مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ یہ بشارت سن کر تنگ دست فقراء نے کہا کہ ہم صبر کرتے ہیں اور ہم آپ سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ (صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7463 (2979)) حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بےشک اللہ تعالیٰ اپنے اس عیال دار بندے کو پسند کرتا ہے جو ضرورت مند ہونے کے باوجود سوال نہیں کرتا۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث: 4121)
(2) واضح رہے کہ جنت میں فقراء لوگوں کی اکثریت ان کا فقر نہیں بلکہ عقیدے کی درستی اور نیک اعمال کا جذبہ ہو گا اور اگر کوئی فقیر نیک کردار نہیں تو وہ قطعاً جنت کا حق دار نہیں ہو گا۔ بہرحال حدیث میں دنیا کی لذتوں سے کنارہ کش ہونے پر ابھارا گیا ہے۔ (فتح الباري: 337/11)