تشریح:
(1) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں کوفے کے گورنر تھے۔ اہل کوفہ انتہائی سازشی اور مکار تھے۔ بنو اسعد قبیلے نے تو حد کر دی تھی۔ انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے متعلق شکایت کی تھی کہ یہ حضرت جہاد میں نہیں جاتے۔ فیصلے کرتے وقت عدل و انصاف سے کام نہیں لیتے اور نماز بھی صحیح طور پر نہیں پڑھاتے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کی تردید میں مذکورہ بیان دیا۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے دور نبوی میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے گزر اوقات کی وضاحت کی ہے کہ انہوں نے مشکل حالات میں اسلام قبول کیا اور درختوں کے پتے کھا کر جہاد میں حصہ لیا۔ کیکر کے پتے کھانے اور اس کا چھلکا چبانے کی وجہ سے انھیں جو قضائے حاجت ہوتی وہ خشک ہونے کا باعث ایک دوسرے سے الگ ہوتی اور اس میں اختلاط نہیں ہوتا تھا۔ ایسے حالات میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم دین اسلام کے احکام کو خوب بجا لاتے اور ان کے متعلق انھیں پوری پوری معلومات حاصل تھیں۔
(3) اس قسم کے حالات اس وقت تھے جب فتوحات کا دروازہ نہیں کھلا تھا۔ فتح خیبر کے بعد کافی حالات تبدیل ہو گئے تھے، لیکن اس کے باوجود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں: ’’آلِ محمد نے تین دن متواتر گندم کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5416)