باب: دنیا کی بہار اور رونق اور اس کی ریجھ کرنے سے ڈرنا
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The warning regarding worldly pleasures, amusements and competing against each other)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6484.
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ باہرتشریف لے گئے اور احد کے شہداء پر اس طرح نماز جنازہ پڑھی جس طرح میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا : ’’میں تمھہارا ’’میر سفر‘‘ ہوں گا اور تم پر گواہی دوں گا۔ اللہ کی قسم! میں اب اپنا حوض دیکھ رہا ہوں۔ مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دے دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے تمہارے متعلق یہ اندیشہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے لیکن مجھے یہ خطرہ ضرور ہے کہ تم حصول دنیا کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے۔‘‘
تشریح:
(1) دنیا کی بہاریں اور اس کی رنگینی جس پر کھول دی جائے اسے چاہیے کہ اس کے برے انجام اور سنگین نتائج سے بچنے کی کوشش کرے۔ اسے دیکھ کر خود کو مطمئن نہ کرے اور نہ اس کے متعلق کسی دوسرے سے آگے بڑھنے کی تگ و دو ہی کرے۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فقر و تنگدستی کا درجہ مال داری اور تونگری سے زیادہ ہے کیونکہ دنیا کا فتنہ مال و دولت سے وابستہ ہے، بعض اوقات یہ فتنہ انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے جبکہ فقیر و تنگدست انسان ان تمام قسم کے شر سے محفوظ رہتا ہے۔ (فتح الباري: 295/11) (3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ چٹائی پر سوئے ہوئے تھے۔ جب بیدار ہوئے تو نرم و نازک جسم پر چٹائی کے نشان پڑ چکے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ حکم دیں تو ہم کسی بستر کا انتظام کر دیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے دنیا اور اس کے سازوسامان سے کیا غرض ہے؟ میرا تعلق تو دنیا کے ساتھ اس مسافر جیسا ہے جو کچھ دیر سایہ لینے کے لیے درخت کے نیچے ٹھہرا پھر اسے چھوڑ کر اپنی منزل کی طرف چل دیا۔‘‘ (مسند أحمد: 441/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6197
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6426
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6426
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6426
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ باہرتشریف لے گئے اور احد کے شہداء پر اس طرح نماز جنازہ پڑھی جس طرح میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا : ’’میں تمھہارا ’’میر سفر‘‘ ہوں گا اور تم پر گواہی دوں گا۔ اللہ کی قسم! میں اب اپنا حوض دیکھ رہا ہوں۔ مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دے دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے تمہارے متعلق یہ اندیشہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے لیکن مجھے یہ خطرہ ضرور ہے کہ تم حصول دنیا کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) دنیا کی بہاریں اور اس کی رنگینی جس پر کھول دی جائے اسے چاہیے کہ اس کے برے انجام اور سنگین نتائج سے بچنے کی کوشش کرے۔ اسے دیکھ کر خود کو مطمئن نہ کرے اور نہ اس کے متعلق کسی دوسرے سے آگے بڑھنے کی تگ و دو ہی کرے۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فقر و تنگدستی کا درجہ مال داری اور تونگری سے زیادہ ہے کیونکہ دنیا کا فتنہ مال و دولت سے وابستہ ہے، بعض اوقات یہ فتنہ انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے جبکہ فقیر و تنگدست انسان ان تمام قسم کے شر سے محفوظ رہتا ہے۔ (فتح الباري: 295/11) (3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ چٹائی پر سوئے ہوئے تھے۔ جب بیدار ہوئے تو نرم و نازک جسم پر چٹائی کے نشان پڑ چکے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ حکم دیں تو ہم کسی بستر کا انتظام کر دیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے دنیا اور اس کے سازوسامان سے کیا غرض ہے؟ میرا تعلق تو دنیا کے ساتھ اس مسافر جیسا ہے جو کچھ دیر سایہ لینے کے لیے درخت کے نیچے ٹھہرا پھر اسے چھوڑ کر اپنی منزل کی طرف چل دیا۔‘‘ (مسند أحمد: 441/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا، ان سے ابو الخیر نے بیان کیا اور ان سے عقبہ بن عامر ؓ نے کہ رسول کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور جنگ احد کے شہیدوں کے لئے اس طرح نماز پڑھی جس طرح مردہ پر نماز پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا آخرت میں میں تم سے آگے جاؤںگا اور میں تم پر گواہ ہوں گا، واللہ میں اپنے حوض کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا (فرمایا کہ) زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور اللہ کی قسم! میں تمہارے متعلق اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ مجھے تمہارے متعلق یہ خوف ہے کہ تم دنیا کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو گے۔
حدیث حاشیہ:
بعد کے زمانوں میں مسلمانوں کی خانہ جنگی کی تاریخ پر گہری نظر ڈالنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا اور بیشتر اسلامی اکابر آپس میں رقابت سے تباہ ہو گئے حتیٰ کہ علماء کرام بھی اس بیماری سے نہ بچ سکے إلا من شاء اللہ۔ مزید اگر گوئم زباں سوزد۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Uqba bin 'Amir (RA) : The Prophet (ﷺ) went out and offered the funeral prayer for the martyrs of the (battle of) Uhud and then ascended the pulpit and said, "I am your predecessor and I am a witness against you. By Allah, I am now looking at my Tank-lake (Al-Kauthar) and I have been given the keys of the treasures of the earth (or the keys of the earth). By Allah! I am not afraid that after me you will worship others besides Allah, but I am afraid that you will start competing for (the pleasures of) this world."