تشریح:
(1) اس وقت زمین پر کوئی مکان، راستہ، باغ، پہاڑ یا دریا وغیرہ نہیں ہوں گے بلکہ موجودہ زمین کی شکل و صورت کو بدل دیا جائے گا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جس دن یہ زمین اور آسمان تبدیل کر دیے جائیں گے۔‘‘ (إبراھیم: 48/14)
(2) قرآن کریم کی بعض آیات سے زمین میں تبدیلی کی جو صورت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین میں اس دن کوئی بلندی یا پستی نہیں رہے گی۔ سب پہاڑ زمین بوس کر دیے جائیں گے اور سب کھڈے بھر دیے جائیں گے۔ اسی طرح سطح زمین ہموار اور پہلے سے بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔ اور سب سے اہم تبدیلی یہ ہو گی کہ سمندروں، دریاؤں اور ندی نالوں کو خشک کر دیا جائے گا۔ چونکہ سمندر کی سطح کا رقبہ خشکی کے رقبے سے تین گنا زیادہ ہے، اس طرح موجودہ زمین سے تبدیل شدہ زمین کم از کم چار گنا بڑھ جائے گی اور نشیب و فراز کے بجائے تمام زمین ہموار ہو گی۔
(3) اس نئی زمین اور نئے آسمان کے لیے طبعی قوانین بھی موجودہ قوانین سے الگ ہوں گے اور اسی زمین پر اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم ہو گی۔ اعمال تولنے کے لیے میزان بھی اسی زمین پر رکھی جائے گی پھر لوگوں کے اعمال کے مطابق ان کی جزا و سزا کے فیصلے بھی اسی جگہ ہوں گے۔ الحاصل اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے زمین کی موجودہ شکل کو تبدیل کر دے گا اور اس میں طعام کی صلاحیت پیدا کر کے اسے روٹی بنا دیا جائے گا تاکہ محشر کے طویل زمانہ میں اہل ایمان اپنے قدموں کے نیچے سے کھائیں اور انہیں اتنی طویل مدت تک بھوکا رہنے سے تکلیف نہ ہو، سالن کے طور پر بیل کی کلیجی اور مچھلی کے ٹکڑے مہیا کیے جائیں گے۔ واللہ المستعان