Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: To give up sinful deeds)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6540.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میری مثال اور اس کی مثال جس کے ساتھ اللہ تعالٰی نے مجھے مبعوث کیا ہے اس آدمی کی طرح ہے جو کسی قوم کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دشمن کا لشکر دیکھا ہے اور میں تمہیں واضح طور ہر اس سے خبردار کرنے والا ہوں، لہذا اس سے بچنے کی فکر کرو اور اس سے بچو تو ایک گروہ نے اس کی بات مان لی اور راتوں رات اطمینان سے کسی محفوظ جگہ پر چلے گئے اور نجات پائی جبکہ دوسرے گروہ نے اسے جھٹلا دیا تو دشمن کے لشکر نے ان پر صبح کے وقت حملہ کرکے اچانک انہیں تباہ کر دیا۔“
تشریح:
(1) عربوں میں یہ رواج تھا کہ لوگوں کو دشمن سے خبردار کرنے والا شخص اپنے کپڑے اتار کر برہنہ ہو جاتا اور کپڑوں کو اپنے سر پر گھماتا تھا، پھر اعلان کرتا کہ دشمن حملہ کرنے والا ہے۔ (2) حدیث کے معنی یہ ہیں کہ میں تمہیں واضح طور پر خبردار کرنے والا ہوں، جہنم سے بچنے کی فکر کرو۔ اس حدیث کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر نکلے اور تین دفعہ آواز دے کر فرمایا: ’’میری اور تمہاری مثال اس قوم کی طرح ہے جنہیں دشمن سے خطرہ تھا کہ وہ اچانک حملہ کر دے گا۔ انہوں نے نگرانی کے لیے ایک آدمی کو بھیجا۔ اس نے ایک دن دیکھا کہ دشمن ان پر حملے کی تیاری کر رہا ہے تو وہ فوراً وہاں سے بھاگا تاکہ اپنی قوم کو اس کی تیاری سے آگاہ کرے، ایسا نہ ہو کہ دشمن حملہ کر کے انہیں تباہ کر دے، چنانچہ وہ اپنے کپڑے اتار کر وہاں سے بھاگا اور اعلان کرنے لگا: لوگو! اپنی فکر کر لو، اپنے بچنے کی تدبیر کر لو۔‘‘ (مسند أحمد: 248/5) (3) بہرحال جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ سن کر گناہوں سے بچیں گے وہ جہنم سے بچ جائیں گے جبکہ گناہوں سے نہ بچنے والے جہنم کا ایندھن بن جائیں گے۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6253
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6482
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6482
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6482
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میری مثال اور اس کی مثال جس کے ساتھ اللہ تعالٰی نے مجھے مبعوث کیا ہے اس آدمی کی طرح ہے جو کسی قوم کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دشمن کا لشکر دیکھا ہے اور میں تمہیں واضح طور ہر اس سے خبردار کرنے والا ہوں، لہذا اس سے بچنے کی فکر کرو اور اس سے بچو تو ایک گروہ نے اس کی بات مان لی اور راتوں رات اطمینان سے کسی محفوظ جگہ پر چلے گئے اور نجات پائی جبکہ دوسرے گروہ نے اسے جھٹلا دیا تو دشمن کے لشکر نے ان پر صبح کے وقت حملہ کرکے اچانک انہیں تباہ کر دیا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) عربوں میں یہ رواج تھا کہ لوگوں کو دشمن سے خبردار کرنے والا شخص اپنے کپڑے اتار کر برہنہ ہو جاتا اور کپڑوں کو اپنے سر پر گھماتا تھا، پھر اعلان کرتا کہ دشمن حملہ کرنے والا ہے۔ (2) حدیث کے معنی یہ ہیں کہ میں تمہیں واضح طور پر خبردار کرنے والا ہوں، جہنم سے بچنے کی فکر کرو۔ اس حدیث کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر نکلے اور تین دفعہ آواز دے کر فرمایا: ’’میری اور تمہاری مثال اس قوم کی طرح ہے جنہیں دشمن سے خطرہ تھا کہ وہ اچانک حملہ کر دے گا۔ انہوں نے نگرانی کے لیے ایک آدمی کو بھیجا۔ اس نے ایک دن دیکھا کہ دشمن ان پر حملے کی تیاری کر رہا ہے تو وہ فوراً وہاں سے بھاگا تاکہ اپنی قوم کو اس کی تیاری سے آگاہ کرے، ایسا نہ ہو کہ دشمن حملہ کر کے انہیں تباہ کر دے، چنانچہ وہ اپنے کپڑے اتار کر وہاں سے بھاگا اور اعلان کرنے لگا: لوگو! اپنی فکر کر لو، اپنے بچنے کی تدبیر کر لو۔‘‘ (مسند أحمد: 248/5) (3) بہرحال جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ سن کر گناہوں سے بچیں گے وہ جہنم سے بچ جائیں گے جبکہ گناہوں سے نہ بچنے والے جہنم کا ایندھن بن جائیں گے۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبد اللہ بن ابی بردہ نے ان سے ابو بردہ نے، اور ان سے ابو موسیٰ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میری اور جو کچھ کلام اللہ نے میرے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال ایک ایسے شخص جیسی ہے جو اپنی قوم کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے (تمہارے دشمن کا) لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور میں ننگا ڈرانے والا ہوں۔ پس بھاگو پس بھاگو (اپنی جان بچاؤ) اس پر ایک جماعت نے اس کی بات مان لی اور رات ہی رات اطمینان سے کسی محفوظ جگہ پر نکل گئے اور نجات پائی۔ لیکن دوسری جماعت نے اسے جھٹلایا اور دشمن کے لشکر نے صبح کے وقت اچانک انہیں آلیا اور تباہ کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
یہ عرب میں ایک مثل ہوگئی ہے ہوا یہ تھا کہ کسی زمانہ میں دشمن کی فوجیں ایک ملک پر چڑھ گئی تھیں۔ ان ملک والوں میں سے ایک شخص ان فوجوں کو ملا انہوں نے اس کو پکڑا اور اس کے کپڑے اتار لئے وہ اسی حال میں ننگ دھڑنگ بھاگ نکلا اور اپنے ملک والوں کو جا کر خبر دی کہ جلدی اپنا بندوبست کر لو دشمن آن پہنچا، اس کے ملک والوں نے اس کی تصدیق کی چونکہ وہ برہنہ اور ننگا بھاگتا آ رہا تھا اور اس کی عادت ننگا پھر نے کی نہ تھی۔ باب کی مطابقت اس طرح سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو گناہوں سے اور اللہ کی نافرمانی سے ڈرایا اور خبر دی کہ اللہ کا عذاب گنہگاروں کے لئے تیار ہے تو گناہوں سے توبہ کر کے اپنا بچاؤ کر لو پھر جس نے آپ کی بات مانی اسلام قبول کیا شرک اور کفر اور گناہ سے توبہ کی وہ تو بچ گیا اور جس نے نہ مانی وہ صبح ہوتے ہی یعنی مرتے ہی تباہ ہوگیا عذاب الٰہی میں گرفتار ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said. "My example and the example of the message with which Allah has sent me is like that of a man who came to some people and said, "I have seen with my own eyes the enemy forces, and I am a naked warner (to you) so save yourself, save yourself! A group of them obeyed him and went out at night, slowly and stealthily and were safe, while another group did not believe him and thus the army took them in the morning and destroyed them."