تشریح:
(1) زمانۂ جاہلیت میں لوگ اپنے باپ دادا اور بتوں کے نام کی قسمیں اٹھاتے تھے تاکہ ان کی عظمت کا بول بالا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ لوگوں کی زبانوں سے صرف اس کی عظمت و تکریم کا اظہار ہو کیونکہ وہی معبود برحق ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے غیراللہ کی قسم اٹھانے سے منع کر دیا۔
(2) باپ دادا کی قسم اٹھانے سے ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ قسم کا مقصد اس ذات کی عظمت کا اظہار ہے جس کی قسم اٹھائی جائے اور حقیقی عظمت تو اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص ہے، اس لیے غیراللہ کی قسم اٹھانا منع ہے۔
(3) یہ پابندی جن و انس کے لیے ہے جو شریعت پر عمل کرنے کے مکلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس پابندی سے بالا ہے، وہ مخلوق کی شرافت کے لیے جو چاہے قسم اٹھائے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید، الطور، السماء، التین اور الزیتون کی قسم اٹھائی ہے۔ کعبہ کی قسم اٹھانا بھی ناجائز ہے۔ قرآن چونکہ اللہ کا کلام ہے، لہذا اس کی قسم اٹھائی جا سکتی ہے کیونکہ اللہ کا کلام اس کی صفت ہے اور صفات باری تعالیٰ کی قسم اٹھانا جائز ہے۔
(4) اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مدینے کی قسم اٹھانا جائز نہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے ایک آدمی کو کعبے کی قسم اٹھاتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ غیراللہ کی قسم نہ اٹھاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: ’’جس نے غیراللہ کی قسم اٹھائی اس نے کفر یا شرک کا ارتکاب کیا۔‘‘ (جامع الترمذي، النذور والأیمان، حدیث: 1535) امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر یوں بیان کی ہے کہ حدیث میں غیراللہ کی قسم اٹھانے کو شرک اور کفر قرار دیا گیا ہے، اس سے مراد سخت وعید ہے، قسم اٹھانے والا دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے باپ کی قسم اٹھاتے دیکھ کر انہیں دوبارہ مسلمان ہونے کے متعلق نہیں کہا۔ وہاں البتہ اگر کوئی شخص بتوں کی قسم اٹھاتا ہے اور اس سے مقصود ان کی تعظیم اور عظمت ہے تو وہ لا إله إلا الله کا اقرار کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے لات و عزیٰ کی قسم اٹھائی، وہ لا إله إلا الله پڑھے۔‘‘ واللہ أعلم