تشریح:
(1) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تم اپنے قسموں کے لیے اللہ کے نام کو ڈھال نہ بناؤ۔‘‘ (البقرة: 224/2) اس آیت کریمہ کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم کھاتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ اگر ضرورت ہو تو قسم کھائی جائے، بلاوجہ اور بلا ضرورت قسمیں اٹھانا مستحسن اقدام نہیں ہے، ہاں اگر کوئی عظیم مقصد پیش نظر ہو تو مطالبے کے بغیر قسم اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوان کا یہی مقصد ہے، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھائی کہ وہ سونے کی انگوٹھی کبھی نہیں پہنیں گے، حالانکہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قسم کھانے کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔
(2) دراصل دور جاہلیت میں لوگ لات و عزی اور اپنے باپ دادا کی قسمیں اٹھاتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر اس رسم بد کا خاتمہ تھا اور آپ بکثرت کلام میں اللہ تعالیٰ کی قسم اس لیے کھاتے تھے تاکہ ان پر واضح کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی قسم کھانا جائز نہیں، نیز لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھایا کریں اور دور جاہلیت کی قسموں کو خیر باد کہہ دیں۔ (فتح الباري: 655/11)