تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دو مقاصد کے پیش نظر اس حدیث کو بیان فرمایا ہے۔(الف)۔تبلیغ کی اہمیت سے ہمیں آگاہ کرنا یعنی اگر کوئی شخص حدیث کے معانی کو نہ سمجھتا ہو بلکہ اس نے صرف الفاظ ہی یاد کررکھے ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ ان الفاظ کو دوسروں تک پہنچادے۔ ممکن ہے کہ کوئی شاگرد یا سامع اس سے زیادہ سمجھدار ہو اور وہ اس حدیث سے مسائل کا استخراج واستنباط کرے۔ (ب)۔اس بات پر تنبیہ بھی مقصود ہے کہ اگرکوئی طالب علم ہونہار اور سمجھدار ہوا اوراستاد اتنا ذہین وفطین نہ ہو تو طالب علم کو اس سے تحصیل علم کے متعلق کوئی شرم یاعار نہیں ہونی چاہیے۔ خواہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو لیجئے کہ ان کے اساتذہ ان کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں، اس لیے یہ تصور غلط ہے کہ شاگرد استاد کے مقابلے میں ہمیشہ ادنیٰ اور کمزور ہی ہوتا ہے۔
2۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بوقت ضرورت امام، خطیب یا محدث سواری پر بیٹھے ہوئے بھی وعظ کرسکتا ہے، خطبہ بھی دے سکتا ہے، شاگردوں سے سوال وجواب بھی کرسکتاہے، نیز شاگرد کو چاہیے کہ وہ استاد کی تشریح اور تفصیل کا انتظار کرے اور خود جواب دینے میں جلدی نہ کرے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض شاگرد فہم وحفظ میں اپنے اساتذہ سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔
3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر دسویں تاریخ کو جمرات کے پاس کھڑے ہوکرارشاد فرمایا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1742) ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حاضرین سے دریافت فرمایا کہ یہ کون سادن ہے؟ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خاموشی اختیار کی۔ اورصحیح بخاری ہی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جواب دیا کہ آج یوم النحر ہے۔ (حدیث:1739) ان روایات میں تعارض نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریب جو لوگ تھے وہ خاموش رہے ہوں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھیوں نے جواب دیا ہو اور ہرشخص نے اپنے علم کے مطابق روایت بیان کردی۔(فتح الباري: 210/1)