قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ، فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ، وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ، وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ، إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ، فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ، مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ، آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لاَ تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا،)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ، إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ، فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ، وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ، إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ، فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ، مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ، وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَوِ امْرَأَةٌ، وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ، فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ، مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا، أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ، وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ} [النساء: 12]

6723. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ مَرِضْتُ فَعَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَهُمَا مَاشِيَانِ فَأَتَانِي وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَبَّ عَلَيَّ وَضُوءَهُ فَأَفَقْتُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ أَصْنَعُ فِي مَالِي كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي فَلَمْ يُجِبْنِي بِشَيْءٍ حَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمَوَارِيثِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور تمہاری بیویاں جو مال اسباب چھوڑ جائیں اگر اس کی اولاد نہ ہو( نہ بیٹا نہ بیٹی) تب تو تم کو آدھا ترکہ ملے گا۔ اگر اولاد ہو تو چوتھائی یہ بھی وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد ملے گا اسی طرح تم جو مال و اسباب چھوڑ جاؤ اور تمہاری اولاد بیٹا بیٹی کوئی نہ ہو تو تمہاری بیویوں کو اس میں سے چوتھائی ملے گا اگر اولاد ہو تو آٹھواں حصہ یہ بھی وصیت اور قرضہ ادا کرنے کے بعد اور اگر کوئی مرد یا عورت مرجائے اور وہ کلالہ ہو( نہ اس کا باپ ہو نہ بیٹا) بلکہ ماں جائے ایک بھائی یا بہن ہو( یعنی اخیافی) تو ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ اگر اسی طرح کئی اخیائی بھائی بہن ہوں تو سب مل کر ایک تہائی پائیں گے۔ یہ بھی وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد بشرطیکہ میت نے وارثوں کو نقصان پہنچانے کے لئے وصیت نہ کی ہو“ ۔ ( یعنی ثلث مال سے زیادہ کی) یہ سارا فرمان اللہ پاک کا اور اللہ ہر ایک کا حال خوب جانتا ہے وہ بڑے تحمل والا ہے( جلدی عذاب نہیں کرتا) “ ۔کتاب الفرائض جمع فریضۃ کحدیقۃ و حدائق والفریضۃ فعلیہ بمعنی مفروضۃ ماخوذۃ من الفرض وہو القطع یقال فرضت لفلان کذا ای قطعت لہ شیئا من المال قالہ الخاطبی و خصت المواریث باسم الفرائض من قول تعالیٰ نصیبا مفروضا....اومعلوما او مقطوعا عن غیرہم ( خلاصہ فتح الباری ) لفظ فرائض فریضہ کی جمع ہے جیسے حدیقہ کی جمع حدائق ہے اورلفظ فریضہ بمعنی مفروضہ ہے جو فرض سے ماخوذ ہے جس کے معنی کاٹنے کے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ میں نے اتنا مال فلاں کے لئے کاٹ کر الگ رکھ دیا۔ مواریث کو نام فرائض سے خاص کیاگیا ہے جیسا کہ آیت میں ہے۔ نصیبا مفروضہ حصہ مقرر کیا ہوا یعنی ان کے غیر سے کاٹا ہوا۔ کتاب الفرائض میں ترکہ کے مسائل بیان کئے جاتے ہیں جو ترکہ سے حق داروں کو حصے ملتے ہیں۔ فرائض کا ایک مستقل علم ہے جسکی تفصیلات بہت ہیں یہ علم ہر کسی کو نہیں آتا اس میں علم ریاضی حساب کی کافی ضرورت پڑتی ہے۔ ہماری جماعت میں حضرت مولانا عبدالرحمن بجوادی علم فرائض کے امام تھے۔ آپ نے فتاویٰ ثنائیہ حصہ دوم میں کتاب الفرائض پر ایک جامع مقدمہ تحریر فرمایا ہے۔ غفراﷲ لہ ( آمین ) باقی سب باپ کو ملے گا۔ بھائی بہنوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ باپ کے ہوتے ہوئے بھائی بہن ترکہ سے محروم ہیں لیکن ماں کا حصہ کم کردیتے ہیں۔ یعنی ان کے وجود سے ماں کا تہائی حصہ کم ہوکر چھٹا رہ جاتا ہے۔

6723.

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ بیمار ہوا تو رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ پیدل چل کر میری عیادت کے لیے آئے۔ یہ دونوں حضرات جب ائے تو مجھ غشی طاری تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا اور وضو سے بچا ہوا پانی مجھ پر چھڑکا۔ مجھے جب ہوش آیا تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں اپنے مال کا کیا کروں؟ اپنے مال کے متعلق کیا فیصلہ کروں؟ (یہ سن کر) آپ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ میراث کی آیت کریمہ نازل ہوئی۔