تشریح:
(1) جس وقت علم اور علماء نہیں رہیں گے تو جہالت عام ہو گی۔ اس وقت گفتگو کا دارومدار صرف ظن و تخمین پر ہو گا۔ ایسے لوگوں کی زبانوں پر جھوٹ جلدی جاری ہوتا ہے۔ جب کسی کو قرآن و حدیث کا علم نہیں ہو گا تو اپنے گمان کے فیصلے کرے گا، اس طرح علم فرائض بھی ان کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ کو علم فرائض کے متعلق اپنے معیار کی کوئی حدیث نہ مل سکی، اس لیے مذکورہ حدیث سے تعلیم فرائض کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فرائض کا علم سیکھو اور سکھاؤ کیونکہ میں جلد ہی دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں اور وہ وقت آنے والا ہے کہ علم دنیا سے اٹھ جائے گا، اس حد تک کہ دو آدمی ترکے کے متعلق جھگڑا کریں گے، لیکن صحیح فیصلہ کرنے والا انہیں نہیں ملے گا۔‘‘ (المستدرك للحاکم: 333/4) ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم فرائض حاصل کرو کیونکہ یہ نصف علم ہے اور یہ پہلا علم ہو گا جو میری امت کے سینوں سے چھین لیا جائے گا۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الفرائض، حدیث: 2719) علم فرائض کو نصف علم اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان کی دو حالتیں ہوتی ہیں: حالت حیات اور حالت موت، اس علم کا تعلق حالت موت سے ہے۔ واللہ أعلم