قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ تَعْلِيمِ الفَرَائِضِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ: «تَعَلَّمُوا قَبْلَ الظَّانِّينَ» يَعْنِي: الَّذِينَ يَتَكَلَّمُونَ بِالظَّنِّ

6724. حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

عقبہ بن عامر نے کہا کہ دین کا علم سیکھو اس سے پہلے کہ اٹکل پچھو کرنے والے پیدا ہوں یعنی جو رائے اور قیاس سے فتویٰ دیں، حدیث اور قرآن سے جاہل ہوں۔تشریح: عقبہ کے قول میں گو فرائض کی تخصیص نہیں مگر وہ علم فرائض کو بھی شامل ہے۔ امام احمد اور ترمذی نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نکالا۔ فرائض کا علم سیکھو اور سکھاؤ کیوں کہ میں دنیا سے جانے والا ہوں اور وہزمانہ قریب ہے کہ یہ علم دنیا سے اٹھ جائے گا۔ دو آدمی ترکہ میں جھگڑا کریں گے کوئی فیصلہ کرنے والے ان کو نہ ملے گا۔ ترمذی میں بھی ایک ایسی ہی حدیث مروی ہے۔ وقولہ قبل الظانین فیہ اشعار بان اہل ذالک العصر کانوا یقفون عندالنصوص ولا یتجازونہا و ان نقل عن بعضہم الفتویٰ بالرای فہو قلیل بالنسبۃ و فیہ انذار بوقوع ماحصل من کثرۃ القائلین بالرای و قیل رآہ قبل اندراس العلم و حدوث من یتکلم بمقتضی ظنہ غیر مستند الی علم قال ابن المنیر وانما خص البخاری قول عقبۃ بالفرائض لانہا ادخل فیہ من غیرہا لان الفرائض الغالب علیہ الجعبد والخسام وجوہ الرای والخوض فیہا بالظن لاانضباط لہ بخلاف غیرہا من ابواب العلم فان للرای فیہا مجالا والانضباط فیہا ممکن غالبا و یوخذ من ہذا التقریر مناسبہ الحدیث المرفوع ( فتح الباری ) لفظ قبل الظانین میں ادھر اشارہ کرناہے کہ سلف صالحین کے زمانہ میں لوگ نصوص کے آگے ٹھہر جاتے تھے اور ان سے آگے تجاوز نہیں کرتے تھے۔ اگر ان میں سے کسی سے کوئی فتویٰ رائے سے نقل ہے تو وہ بہت ہی قلیل ہے۔ اس میں بکثرت رائے سے فتویٰ دینے والوں کو ڈرانا بھی ہے۔ یہ بھی کہاگیا ہے کہ یہ علم کے حاصل نہ ہونے سے پہلے کی بات ہے اور ایسے لوگوں کے پیدا ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ جو محض اپنے ظن سے کلام کریں گے اور علم کی کوئی سند ان کے پاس نہ ہوگی۔ حضرت امام بخاری نے عقبہ کے قول کو خاص مقائل فرائض کے ساتھ مختص کیا ہے اس لئے کہ اس علم فرائض میں غالب طورپر یہ مختلف قسم کی رائے قیاس و ظن کو دخل نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس کا کوئی مدون شدہ ضابطہ نہیں ہے بخلاف علم کے دوسرے شعبوں کے کہ ان میں رائے قیاس کو دخل ہے۔ اس تقریر سے حدیث مرفوع کی مناسبت نکلتی ہے۔ حدیث ذیل مراد ہے۔

6724.

حضرت ابو ہریرہ روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”گمان سے اجتناب کرو کیونکہ بدظنی انتہائی جھوٹی بات ہوتی ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو (ایک دوسرے کی برائی کی تلاش نہ کرو) اور نہ ایک دوسرے سے بغض ہی رکھو، نیز پیٹھ پیچھے کسی دوسرے کی برائی بیان نہ کرو، اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن کر رہو۔“