Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The limit set for a patient to attend the congregational Salat (prayer)?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
674.
حضرت اسود ؓ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عائشہ ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اس دوران میں ہم نے نماز کی پابندی اور اس کی عظمت کا ذکر کیا تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مرض وفات میں مبتلا ہوئے اور نماز کے لیے اذان ہوئی تو آپ نے فرمایا: "ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔" اس وقت آپ سے عرض کیا گیا: ابوبکر بڑے نرم دل انسان ہیں۔ جب وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو (شدت غم سے) لوگوں کو نماز نہیں پڑھا سکیں گے۔ آپ نے دوبارہ وہی حکم دیا تو پھر وہی عرض کیا گیا، آپ نے تیسری مرتبہ پھر وہی کہا اور فرمایا: "تم حضرت یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتوں کی طرح ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔" چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نماز پڑھانے کے لیے تشریف لے گئے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری میں کچھ کمی محسوس کی تو آپ دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر نکلے، گویا میں اب بھی آپ کے دونوں پاؤں دیکھ رہی ہوں کہ وہ کمزوری کی وجہ سے زمین پر گھسٹتے جا رہے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنا چاہا تو نبی ﷺ نے انہیں اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو۔ پھر آپ کو لایا گیا تا آنکہ آپ ابوبکر ؓ کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ حضرت اعمش سے دریافت کیا گیا: آیا نبی ﷺ نماز پڑھا رہے تھے اور حضرت ابوبکر ؓ آپ کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ حضرت ابوبکر ؓ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے؟ تو حضرت اعمش نے سر کے اشارے سے ہاں میں جواب دیا۔ ابوداود (طیالسی) نے اس حدیث کا کچھ حصہ شعبہ سے روایت کیا ہے۔ اور ابو معاویہ نے حضرت اعمش سے جو روایت بیان کی ہے اس میں مندرجہ ذیل الفاظ کا اضافہ ہے: رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر ؓ کی بائیں جانب بیٹھ گئے جبکہ ابوبکر ؓ نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں بیماری کی اس حد کو بیان کیا گیا ہے جس کی موجودگی میں نمازی کو جماعت میں شریک ہونا چاہیے۔ اگر مرض اس سے بڑھ جائے تو گھر میں نماز ادا کر نے کی اجازت ہے، چنانچہ اگر بیماری بڑھ جائے کہ بغیر سہارے کے چلنا دشوار ہوتو گھر میں نماز پڑھ لینی چاہیے، ہاں اگر سہارا موجود ہوتو جماعت میں حاضر ہوجانا چاہیے، لیکن اس سے پہلے ایک حدیث میں ہے: ’’اگر انھیں معلوم ہوجائے کہ ان نمازوں میں کس قدر اجرو ثواب ہے تو ان میں ضرور حاضر ہوں، خواہ انھیں گھٹنوں کے بل چل کر آنا پڑے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:657) اس فرمان نبوی کے پیش نظر اسے مبالغے پر محمول کیا جائے گا، یا پھر ایسی صورت ہو کہ جب سہارا بھی موجود نہ ہو اور انسان خود بھی نہ چل سکتا ہوتو ایسے حالات میں گھر پر نماز پڑھنے کی رخصت ہے، تاہم جماعت میں حاضری عزیمت ضرور ہے۔ (فتح الباري:198/2) (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ازواج مطہرات کو حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ والی عورتیں قرار دینے سے مراد یہ تھا کہ جس طرح انھوں نے خلاف باطن کا اظہار کیا اسی تمھارے دل میں بات کچھ اور ہے اور ظاہر کچھ اور کررہی ہو۔ دراصل یوسف علیہ السلام کے ساتھ والی عورتوں سے مراد عزیز مصر کی بیوی ہے۔ اسی طرح آپ نے اگرچہ جمع کا صیغہ استعمال کرکے سب ازواج کو مخاطب کیا لیکن مراد صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما تھیں۔ اس مشابہت کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ عزیز مصر کی بیوی نے خواتین مصر کی دعوت کا اہتمام کیا، بظاہر وہ ان کی مہمان نوازی کررہی تھی لیکن مقصود یہ تھا کہ وہ بھی ذرا حسن یوسف کا نظارہ کرلیں تاکہ مجھے ایک زر خرید غلام سے محبت کرنے میں معذور خیال کریں، اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما بظاہر یہ کہہ رہی تھیں کہ ان کہ والد رقت قلبی کی وجہ سے جماعت نہیں کرواسکیں گے، لہٰذا یہ ذمے داری کسی اور کے سپرد کی جائے لیکن ان کا مقصود یہ تھا کہ ایسے حالات میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مصلائے نبوت پر کھڑے ہونے سے لوگ بد شگونی لیں گے، اس لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق عذر خواہی کر رہی تھیں، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے خود ایک حدیث میں اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4445)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
656
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
664
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
664
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
664
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان سے مقصود بیماری کی اس حد کو بیان کرنا ہے جس کے پیش نظر مریض کو نماز باجماعت میں شریک ہونا چاہیے۔اگر بیماری اس حد سے تجاوز کر جائے تو اس کا جماعت میں شریک ہونا ضروری نہیں۔ لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ مرض اور مریض کے حالات مختلف ہوتے ہیں، لہٰذا اس سلسلے میں کوئی ضابطہ بنانا مشکل ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کئی روز تک صاحب فراش رہے اور آپ اس دوران میں بہت سی نمازوں میں شریک نہیں ہوئے۔
حضرت اسود ؓ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عائشہ ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اس دوران میں ہم نے نماز کی پابندی اور اس کی عظمت کا ذکر کیا تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مرض وفات میں مبتلا ہوئے اور نماز کے لیے اذان ہوئی تو آپ نے فرمایا: "ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔" اس وقت آپ سے عرض کیا گیا: ابوبکر بڑے نرم دل انسان ہیں۔ جب وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو (شدت غم سے) لوگوں کو نماز نہیں پڑھا سکیں گے۔ آپ نے دوبارہ وہی حکم دیا تو پھر وہی عرض کیا گیا، آپ نے تیسری مرتبہ پھر وہی کہا اور فرمایا: "تم حضرت یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتوں کی طرح ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔" چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نماز پڑھانے کے لیے تشریف لے گئے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری میں کچھ کمی محسوس کی تو آپ دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر نکلے، گویا میں اب بھی آپ کے دونوں پاؤں دیکھ رہی ہوں کہ وہ کمزوری کی وجہ سے زمین پر گھسٹتے جا رہے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنا چاہا تو نبی ﷺ نے انہیں اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو۔ پھر آپ کو لایا گیا تا آنکہ آپ ابوبکر ؓ کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ حضرت اعمش سے دریافت کیا گیا: آیا نبی ﷺ نماز پڑھا رہے تھے اور حضرت ابوبکر ؓ آپ کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ حضرت ابوبکر ؓ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے؟ تو حضرت اعمش نے سر کے اشارے سے ہاں میں جواب دیا۔ ابوداود (طیالسی) نے اس حدیث کا کچھ حصہ شعبہ سے روایت کیا ہے۔ اور ابو معاویہ نے حضرت اعمش سے جو روایت بیان کی ہے اس میں مندرجہ ذیل الفاظ کا اضافہ ہے: رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر ؓ کی بائیں جانب بیٹھ گئے جبکہ ابوبکر ؓ نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں بیماری کی اس حد کو بیان کیا گیا ہے جس کی موجودگی میں نمازی کو جماعت میں شریک ہونا چاہیے۔ اگر مرض اس سے بڑھ جائے تو گھر میں نماز ادا کر نے کی اجازت ہے، چنانچہ اگر بیماری بڑھ جائے کہ بغیر سہارے کے چلنا دشوار ہوتو گھر میں نماز پڑھ لینی چاہیے، ہاں اگر سہارا موجود ہوتو جماعت میں حاضر ہوجانا چاہیے، لیکن اس سے پہلے ایک حدیث میں ہے: ’’اگر انھیں معلوم ہوجائے کہ ان نمازوں میں کس قدر اجرو ثواب ہے تو ان میں ضرور حاضر ہوں، خواہ انھیں گھٹنوں کے بل چل کر آنا پڑے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:657) اس فرمان نبوی کے پیش نظر اسے مبالغے پر محمول کیا جائے گا، یا پھر ایسی صورت ہو کہ جب سہارا بھی موجود نہ ہو اور انسان خود بھی نہ چل سکتا ہوتو ایسے حالات میں گھر پر نماز پڑھنے کی رخصت ہے، تاہم جماعت میں حاضری عزیمت ضرور ہے۔ (فتح الباري:198/2) (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ازواج مطہرات کو حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ والی عورتیں قرار دینے سے مراد یہ تھا کہ جس طرح انھوں نے خلاف باطن کا اظہار کیا اسی تمھارے دل میں بات کچھ اور ہے اور ظاہر کچھ اور کررہی ہو۔ دراصل یوسف علیہ السلام کے ساتھ والی عورتوں سے مراد عزیز مصر کی بیوی ہے۔ اسی طرح آپ نے اگرچہ جمع کا صیغہ استعمال کرکے سب ازواج کو مخاطب کیا لیکن مراد صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما تھیں۔ اس مشابہت کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ عزیز مصر کی بیوی نے خواتین مصر کی دعوت کا اہتمام کیا، بظاہر وہ ان کی مہمان نوازی کررہی تھی لیکن مقصود یہ تھا کہ وہ بھی ذرا حسن یوسف کا نظارہ کرلیں تاکہ مجھے ایک زر خرید غلام سے محبت کرنے میں معذور خیال کریں، اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما بظاہر یہ کہہ رہی تھیں کہ ان کہ والد رقت قلبی کی وجہ سے جماعت نہیں کرواسکیں گے، لہٰذا یہ ذمے داری کسی اور کے سپرد کی جائے لیکن ان کا مقصود یہ تھا کہ ایسے حالات میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مصلائے نبوت پر کھڑے ہونے سے لوگ بد شگونی لیں گے، اس لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق عذر خواہی کر رہی تھیں، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے خود ایک حدیث میں اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4445)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے ابراہیم نخعی سے بیان کیا کہ حضرت اسود بن یزید نخعی نے کہا کہ ہم حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر تھے۔ ہم نے نماز میں ہمیشگی اور اس کی تعظیم کا ذکر کیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے مرض الموت میں جب نماز کا وقت آیا اور اذان دی گئی تو فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اس وقت آپ سے کہا گیا کہ ابوبکر بڑے نرم دل ہیں۔ اگر وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو نماز پڑھانا ان کے لیے مشکل ہو جائے گی۔ آپ نے پھر وہی حکم فرمایا، اور آپ کے سامنے پھر وہی بات دہرا دی گئی۔ تیسری مرتبہ آپ نے فرمایا کہ تم تو بالکل یوسف کی ساتھ والی عورتوں کی طرح ہو۔ ( کہ دل میں کچھ ہے اور ظاہر کچھ اور کر رہی ہو ) ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ آخر ابوبکر ؓ نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائے۔ اتنے میں نبی کریم ﷺ نے مرض میں کچھ کمی محسوس کی اور دو آدمیوں کا سہارا لے کر باہر تشریف لے گئے۔ گویا میں اس وقت آپ کے قدموں کو دیکھ رہی ہوں کہ تکلیف کی وجہ سے زمین پر لکیر کرتے جاتے تھے۔ ابوبکر ؓ نے یہ دیکھ کر چاہا کہ پیچھے ہٹ جائیں۔ لیکن آنحضور ﷺ نے اشارہ سے انھیں اپنی جگہ رہنے کے لیے کہا۔ پھر ان کے قریب آئے اور بازو میں بیٹھ گئے۔ جب اعمش نے یہ حدیث بیان کی، ان سے پوچھا گیا کہ کیا نبی کریم ﷺ نے نماز پڑھائی۔ اور ابوبکر ؓ نے آپ کی اقتدا کی اور لوگوں نے ابوبکر ؓ کی نماز کی اقتدا کی؟ حضرت اعمش نے سر کے اشارہ سے بتلایا کہ ہاں۔ ابوداؤد طیالسی نے اس حدیث کا ایک ٹکڑا شعبہ سے روایت کیا ہے اور شعبہ نے اعمش سے اور ابومعاویہ نے اس روایت میں یہ زیادہ کیا کہ آنحضرت ﷺ حضرت ابوبکر ؓ کے بائیں طرف بیٹھے۔ پس ابوبکر ؓ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Aswad (RA): "We were with 'Aisha (RA) discussing the regularity of offering the prayer and dignifying it. She said, 'When Allah's Apostle (ﷺ) fell sick with the fatal illness and when the time of prayer became due and Adhan was pronounced, he said, 'Tell Abu Bakr (RA) to lead the people in prayer.' He was told that Abu Bakr (RA) was a soft-hearted man and would not be able to lead the prayer in his place. The Prophet (ﷺ) gave the same order again but he was given the same reply. He gave the order for the third time and said, 'You (women) are the companions of Joseph. Tell Abu Bakr (RA) to lead the prayer.' So Abu Bakr (RA) came out to lead the prayer. In the meantime the condition of the Prophet (ﷺ) improved a bit and he came out with the help of two men one on each side. As if I was observing his legs dragging on the ground owing to the disease. Abu Bakr (RA) wanted to retreat but the Prophet (ﷺ) beckoned him to remain at his place and the Prophet (ﷺ) was brought till he sat beside Abu Bakr." Al-A'mash was asked, "Was the Prophet (ﷺ) praying and Abu Bakr (RA) following him, and were the people following Abu Bakr (RA) in that prayer?" Al-A'mash replied in the affirmative with a nod of his head. Abu Muawiyahh said, "The Prophet (ﷺ) was sitting on the left side of Abu Bakr (RA) who was praying while standing."