تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم اسے اپنا بھتیجا خیال کرتے ہو، حالانکہ جس لونڈی نے اسے جنم دیا ہے وہ تیرے بھائی کا فراش نہ تھی، نسب تو اسی وقت ثابت ہوتا ہے جب فراش ثابت ہو۔ تیرا بھائی عتبہ زانی تھا اور زانی کی طرف بچہ منسوب نہیں ہوتا، لہٰذا وہ اس بچے سے محروم ہے اور بچے کے بجائے اس کے مقدر میں پتھر ہیں۔
(2) چونکہ اس بچے کی مشابہت عتبہ سے ملتی جلتی تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قانونی ضابطوں کو پورا کرنے کے بعد احتیاط کے طور پر حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہما کو پردے کا حکم دیا۔ جب قانونی طور پر اس کا نسب ثابت ہوگیا تو وراثت بھی اسی ضابطے کے تحت جاری ہوگی۔ اگر صاحب فراش اس کا انکار کر دے تو اسے ماں کی طرف منسوب کیا جائے گا اور وہی اس کی وارث ہوگی جیسا کہ پہلے عنوان میں یہ مسئلہ بیان ہو چکا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کتاب الفرائض میں اسی مقصد کے لیے بیان کی ہے۔ واللہ أعلم