باب: بارش اور کسی عذر سے گھر میں نماز پڑھ لینے کی اجازت کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: It is permissible to pray at one's dwelling during rain or if there is a genuine excuse)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
677.
حضرت محمود بن ربیع انصاری ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عتبان بن مالک ؓ نابینا تھے اور اپنی قوم کے امام تھے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ اندھیری اور سیاہ راتیں ہوتی ہیں اور میں نابینا شخص ہوں (مسجد میں حاضر نہیں ہو سکتا)، لہذا آپ میرے گھر میں کسی مقام پر نماز پڑھ لیں تاکہ میں اس جگہ اپنا "مصلیٰ" بنا لوں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ اس کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا: "تم میری نماز کے لیے کس جگہ کا انتخاب کرتے ہو؟" انہوں نے اپنے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کر دیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں نماز ادا فرمائی۔
تشریح:
(1)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیلاب،اندھیرا اور نابینا ہونا ہر ایک ترک جماعت کےلیے مستقل عذر ہے کیونکہ ان میں علت مشقت موجود ہے ۔ عذر خواہ کوئی بھی ہو اگر اس میں مشقت موجود ہے تو وہ عذر قابل التفات ہے بصورت دیگر نہیں۔ اور اس بات کا فیصلہ خود انسان کا ضمیر کرسکتا ہے کہ موجودہ صورت حال عذر کے لیے قابل قبول ہوسکتی ہے یا محض ایک بہانہ سازی ہے کیونکہ انسانی ضمیر ہی اپنے حالات کا صحیح ادراک رکھنے کی وجہ سے درست فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے (بشرطیکہ وہ مردہ نہ ہوچکا ہو)۔(شرح الکرمانی:2/54)(2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کو ترک جماعت کی اجازت دے دی لیکن حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اجازت نہ دی جبکہ وہ بھی نابینا تھے،اس کی چند ایک وجوہات ہوسکتی ہیں، مثلا:٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کے لیے رخصت کو پسند فرمایا اور حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے لیے عزیمت کا انتخاب فرمایا۔٭حضرت عتبان رضی اللہ عنہ اذان نہ سنتے ہوں گے جبکہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان کی آواز سنتے تھے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔٭ممکن ہے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا عذر حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں کم درجے کا ہو،اس لیے انھیں اجازت نہیں دی گئی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
659
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
667
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
667
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
667
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت محمود بن ربیع انصاری ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عتبان بن مالک ؓ نابینا تھے اور اپنی قوم کے امام تھے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ اندھیری اور سیاہ راتیں ہوتی ہیں اور میں نابینا شخص ہوں (مسجد میں حاضر نہیں ہو سکتا)، لہذا آپ میرے گھر میں کسی مقام پر نماز پڑھ لیں تاکہ میں اس جگہ اپنا "مصلیٰ" بنا لوں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ اس کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا: "تم میری نماز کے لیے کس جگہ کا انتخاب کرتے ہو؟" انہوں نے اپنے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کر دیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں نماز ادا فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
(1)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیلاب،اندھیرا اور نابینا ہونا ہر ایک ترک جماعت کےلیے مستقل عذر ہے کیونکہ ان میں علت مشقت موجود ہے ۔ عذر خواہ کوئی بھی ہو اگر اس میں مشقت موجود ہے تو وہ عذر قابل التفات ہے بصورت دیگر نہیں۔ اور اس بات کا فیصلہ خود انسان کا ضمیر کرسکتا ہے کہ موجودہ صورت حال عذر کے لیے قابل قبول ہوسکتی ہے یا محض ایک بہانہ سازی ہے کیونکہ انسانی ضمیر ہی اپنے حالات کا صحیح ادراک رکھنے کی وجہ سے درست فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے (بشرطیکہ وہ مردہ نہ ہوچکا ہو)۔(شرح الکرمانی:2/54)(2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کو ترک جماعت کی اجازت دے دی لیکن حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اجازت نہ دی جبکہ وہ بھی نابینا تھے،اس کی چند ایک وجوہات ہوسکتی ہیں، مثلا:٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کے لیے رخصت کو پسند فرمایا اور حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے لیے عزیمت کا انتخاب فرمایا۔٭حضرت عتبان رضی اللہ عنہ اذان نہ سنتے ہوں گے جبکہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان کی آواز سنتے تھے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔٭ممکن ہے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا عذر حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں کم درجے کا ہو،اس لیے انھیں اجازت نہیں دی گئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک ؓ علیہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے محمود بن ربیع انصاری سے کہ بن مالک انصاری ؓ نابینا تھے اور وہ اپنی قوم کے امام تھے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اندھیری اور سیلاب کی راتیں ہوتی ہیں اور میں اندھا ہوں، اس لیے آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ لیجیئے تا کہ میں وہیں اپنی نماز کی جگہ بنا لوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ ان کے گھر تشریف لائے اور پوچھا کہ تم کہاں نماز پڑھنا پسند کرو گے۔ انھوں نے گھر میں ایک جگہ بتلا دی اور رسول اللہ ﷺ نے وہاں نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ جہاں نماز باجماعت کی شدید تاکید ہے وہاں شریعت نے معقول عذروں کی بنا پر ترک جماعت کی اجازت بھی دی ہے۔ جیسا کہ احادیث بالا سے ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mahmuid bin Rabi' Al-Ansari (RA): 'Itban bin Malik used to lead his people (tribe) in prayer and was a blind man, he said to Allah's Apostle, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! At times it is dark and flood water is flowing (in the valley) and I am blind man, so please pray at a place in my house so that I can take it as a Musalla (praying place)." So Allah's Apostle (ﷺ) went to his house and said, "Where do you like me to pray?" 'Itban pointed to a place in his house and Allah's Apostle, offered the prayer there.