صحیح بخاری
10. کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
42. باب: جو لوگ (بارش یا اور کسی آفت میں) مسجد میں آ جائیں تو کیا امام ان کے ساتھ نماز پڑھ لے اور برسات میں جمعہ کے دن خطبہ پڑھے یا نہیں؟
Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
42. Chapter: Can the Imam offer the Salat (prayer) with only those who are present (for the prayer)? And can be deliver a Khutba (religious talk) on Friday if it is raining?
باب: جو لوگ (بارش یا اور کسی آفت میں) مسجد میں آ جائیں تو کیا امام ان کے ساتھ نماز پڑھ لے اور برسات میں جمعہ کے دن خطبہ پڑھے یا نہیں؟
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Can the Imam offer the Salat (prayer) with only those who are present (for the prayer)? And can be deliver a Khutba (religious talk) on Friday if it is raining?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
678.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بارش اور کیچڑ کے دن لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور مؤذن کو حکم دیا کہ جب وہ حي على الصلاة پر پہنچے تو اس طرح کہے: "لوگو! اپنی اپنی قیام گاہوں پر نماز پڑھ لو۔" یہ سن کر وہاں موجود لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے: گویا انہوں نے اسے برا محسوس کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے اسے برا خیال کیا ہے؟ حالانکہ یہ کام اس شخصیت نے کیا ہے جو مجھ سے کہیں بہتر تھی، یعنی نبی ﷺ نے۔ چونکہ اذان سے مسجد میں آنا ضروری ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اچھا نہیں سمجھا کہ تمہیں تکلیف میں ڈالوں۔ عاصم کی روایت بھی اسی طرح ہے، البتہ اس کے آخری الفاظ اس طرح ہیں کہ عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ تمہیں گناہ میں مبتلا کروں، تم تنگ دلی کے ساتھ گھٹنوں تک کیچڑ کو روندتے ہوئے مسجد میں آؤ۔
تشریح:
(1)(اَلَا صلوا في الرحال) میں فعل امر ہے جو عام طور پر وجوب کے لیے ہوتا ہے جس سے شبہ ہوتا ہے کہ بارش کے وقت گھروں میں نماز پرھنا ضروری ہے،مسجد میں جماعت کا اہتمام نہیں ہونا چاہیے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان قائم کر کے تنبیہ فرمادی کہ موجودہ امروجوب کےلیے نہیں بلکہ اگر امام مسجد میں موجود لوگوں کو باجماعت نماز پڑھا دے تو جائز ہے۔(2)واضح رہے کہ مذکورہ عنوان دو حصوں پر مشتمل ہے:٭بارش کے وقت امام کا حاضرین کو نماز باجماعت پڑھانا٭جمعے کے دن بوقت بارش خطبۂ جمعہ کا اہتمام کرنا۔امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث میں عنون کے ہر دو اجزاء سے مطابقت موجود ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بارش کے باوجود خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا اور جو لوگ وہاں موجود تھے انھیں نماز باجماعت بھی پڑھائی۔(3)حدیث کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اذان سے پہلے خطبہ دیا،حالانکہ خطبے کاوقت اذان کے بعد ہے پہلے نہیں؟اس کا جواب یہ ہے اس مقام پر فعل سے مراد ارادۂفعل ہے،یعنی جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خطبہ دینے کا ارادہ کیا تو اس وقت مؤذن کو ہدایت کی کہ اذان میں(اَلاَ صلوا في الرحال) کہہ دے۔(حاشیۃ السندی:1/123)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
660
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
668
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
668
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
668
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ جب بارش ہورہی ہو یا کوئی ایسا عذر ہو جس کی وجہ سے جماعت میں حاضر نہ ہونے کی رخصت ہو لیکن کچھ لوگ عزیمت پر عمل کرتے ہوئے مسجد میں آجائیں تو امام کو چاہیے کہ ان کے لیے نماز باجماعت کا اہتمام کرے، اس مین کوئی کراہت نہیں۔گویا(اَلَا صلوا في الرحال) کہنے کی بنا پر جو گھروں میں نماز پڑھنے کا حکم ہے، وہ استحباب کے لیے نہیں بلکہ صرف اباحت کے لیے ہے۔(فتح الباری:2/205)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بارش اور کیچڑ کے دن لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور مؤذن کو حکم دیا کہ جب وہ حي على الصلاة پر پہنچے تو اس طرح کہے: "لوگو! اپنی اپنی قیام گاہوں پر نماز پڑھ لو۔" یہ سن کر وہاں موجود لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے: گویا انہوں نے اسے برا محسوس کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے اسے برا خیال کیا ہے؟ حالانکہ یہ کام اس شخصیت نے کیا ہے جو مجھ سے کہیں بہتر تھی، یعنی نبی ﷺ نے۔ چونکہ اذان سے مسجد میں آنا ضروری ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اچھا نہیں سمجھا کہ تمہیں تکلیف میں ڈالوں۔ عاصم کی روایت بھی اسی طرح ہے، البتہ اس کے آخری الفاظ اس طرح ہیں کہ عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ تمہیں گناہ میں مبتلا کروں، تم تنگ دلی کے ساتھ گھٹنوں تک کیچڑ کو روندتے ہوئے مسجد میں آؤ۔
حدیث حاشیہ:
(1)(اَلَا صلوا في الرحال) میں فعل امر ہے جو عام طور پر وجوب کے لیے ہوتا ہے جس سے شبہ ہوتا ہے کہ بارش کے وقت گھروں میں نماز پرھنا ضروری ہے،مسجد میں جماعت کا اہتمام نہیں ہونا چاہیے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان قائم کر کے تنبیہ فرمادی کہ موجودہ امروجوب کےلیے نہیں بلکہ اگر امام مسجد میں موجود لوگوں کو باجماعت نماز پڑھا دے تو جائز ہے۔(2)واضح رہے کہ مذکورہ عنوان دو حصوں پر مشتمل ہے:٭بارش کے وقت امام کا حاضرین کو نماز باجماعت پڑھانا٭جمعے کے دن بوقت بارش خطبۂ جمعہ کا اہتمام کرنا۔امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث میں عنون کے ہر دو اجزاء سے مطابقت موجود ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بارش کے باوجود خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا اور جو لوگ وہاں موجود تھے انھیں نماز باجماعت بھی پڑھائی۔(3)حدیث کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اذان سے پہلے خطبہ دیا،حالانکہ خطبے کاوقت اذان کے بعد ہے پہلے نہیں؟اس کا جواب یہ ہے اس مقام پر فعل سے مراد ارادۂفعل ہے،یعنی جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خطبہ دینے کا ارادہ کیا تو اس وقت مؤذن کو ہدایت کی کہ اذان میں(اَلاَ صلوا في الرحال) کہہ دے۔(حاشیۃ السندی:1/123)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب بصری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالحمید صاحب الزیادی نے بیان کیا کہ کہا میں نے عبداللہ بن حارث بن نوفل سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دن ابن عباس ؓ نے جب کہ بارش کی وجہ سے کیچڑ ہو رہی تھی خطبہ سنایا۔ پھر مؤذن کو حکم دیا اور جب وہ حی علی الصلوٰۃ پر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ آج یوں پکار دو کہ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لو۔ لوگ ایک دوسرے کو ( حیرت کی وجہ سے ) دیکھنے لگے۔ جیسے اس کو انھوں نے ناجائز سمجھا۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے شاید اس کو برا جانا ہے۔ ایسا تو مجھ سے بہتر ذات یعنی رسول اللہ ﷺ نے بھی کیا تھا۔ بے شک جمعہ واجب ہے مگر میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ حی علی الصلوٰۃ کہہ کر تمہیں باہر نکالوں ( اور تکلیف میں مبتلا کروں ) اور حماد عاصم سے، وہ عبداللہ بن حارث سے، وہ ابن عباس ؓ سے، اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ البتہ انھوں نے اتنا اور کہا کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ مجھے اچھا معلوم نہیں ہوا کہ تمہیں گنہگار کروں اور تم اس حالت میں آؤ کہ تم مٹی میں گھٹنوں تک آلودہ ہو گئے ہو
حدیث حاشیہ:
شارحین بخاری لکھتے ہیں: مقصود المصنف من عقد ذلک الباب بیان ان الامر بالصلوٰۃ فی الرحال للاباحۃ لا للوجوب و لا للندب و الا لم یجز او لم یکن اولی ان یصلی الامام بمن حضر یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ بارش اور کیچڑ کے وقت اپنے اپنے ٹھکانوں پر ادا کرنے کا حکم وجوب کے لیے نہیں ہے، صرف اباحت کے لیے ہے۔ اگر یہ امر وجوب کے لیے ہوتا توپھر حاضرین مسجد کے ساتھ امام کا نماز ادا کرنا بھی جائز نہ ہوتا یا اولی نہ ہوتا۔ بارش میں ایسا ہوتا ہی ہے کہ کچھ لوگ آجاتے ہیں، کچھ نہیں آسکتے۔ بہر حال شارع نے ہر طرح سے آسانی کو پیش نظر رکھا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Al-Harith (RA): Ibn Abbas (RA) addressed us on a (rainy and) muddy day and when the Mu'adh-dhin said, "Come for the prayer" Ibn 'Abbas (RA) ordered him to say, "Pray in your homes." The people began to look at one another with surprise as if they did not like it. Ibn 'Abbas (RA) said, "It seems that you thought ill of it but no doubt it was done by one who was better than I (i.e. the Prophet). It (the prayer) is a strict order and I disliked bringing you out." Ibn 'Abbas (RA) narrated the same as above but he said, "I did not like you to make you sinful (in refraining from coming to the mosque) and to come (to the mosque) covered with mud up to the knees."