تشریح:
(1) امامت کے سلسلے میں حضرت امام بخاری ؒ کا موقف یہ ہے کہ اس کے لیے اہل علم و فضل کا انتخاب کرنا چاہیے۔ دین سے بے بہرہ شخص اس منصب کے قطعاً لائق نہیں، خواہ بہترین قاری ہی کیوں نہ ہو کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر صاحب علم و فضل تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں مصلائے امامت پر مقرر فرمایا، لہٰذا اس عظیم منصب کے شایان شان یہی ہے کہ اس آدمی کو یہ اعزاز بخشا جائے جو علم وفضل میں عظیم تر ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امام صاحب کا مقصود جمہور کے موقف کی تائید کرنا ہو کہ علمائے حضرات بہ نسبت قراء حضرات کے منصب امامت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت ابی بن کعب ؓ سب سے بڑے قاری تھے۔ جیسا کہ نص حدیث سے ثابت ہے، اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا انتخاب فرمایا کیونکہ وہ علم وفضل میں سب سے زیادہ فائق تھے۔ (حاشیة السندي:124/1)
(2) ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں کا امام ایسا ہونا چاہیے جو قرآن کا زیادہ حافظ ہو، اگر اس وصف میں سب برابر ہوں تو پھر وہ شخص امام بنے جسے سنت نبوی کا زیادہ علم ہو۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1532(673)) نیز حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور امامت وہ شخص کرائے جسے قرآن زیادہ یاد ہو۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1532(673)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ امامت کا منصب حافظ قرآن کو دینا چاہیے۔ جمہور اس قسم کی احادیث کو منسوخ قرار دیتے ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے آخری وقت حضرت ابو بکر ؓ کو منصب امامت پر فائز فرمایا، لیکن ان احادیث کو منسوخ قرار دینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ حضرت ابو بکر صديق ؓ حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ سنت کے سب سے بڑے عالم تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھی اوصافِ فاضلہ کی بنا پر منصب امامت ان کے حوالے فرمایا۔ حدیث مسلم میں أعلم بالسنة سے مراد وہ شخص ہے جو بقدر ضرورت قرآن مجید صحیح طور پر پڑھنے کے ساتھ ساتھ نماز سے متعلقہ مسائل بہ نسبت دوسروں کے زیادہ جانتا ہو، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ علم، فہم، تقویٰ اور خوف وخشیت والے تھے۔ (رضي اللہ عنه)