تشریح:
(1) ابن بطال نے کہا ہے کہ گناہ گاروں کا نام لے کر ان کے روبرو لعنت کرنا درست نہیں بلکہ ایسے برے کاموں کے ارتکاب پر نام لیے بغیر لعنت کرنا جائز ہے تاکہ وہ ان سے باز رہیں۔ کسی کا نام لینے سے وہ مایوس ہو سکتا ہے اور گناہ کرنے پر جری ہو سکتا ہے۔ (فتح الباري: 99/12)
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ''لعن الله السارق" کے تین معنی بیان کیے ہیں: ٭اس سے مراد خبر دینا ہے تاکہ سننے والا چوری نہ کرے، یعنی اللہ تعالیٰ نے چور پر لعنت بھیجی ہے۔ ٭اس سے مراد بددعا کرنا ہے تاکہ چور، چوری سے پہلے ہی باز آجائے، یعنی اللہ تعالیٰ چور پر لعنت کرے۔ ٭اس سے مراد حقیقت کے طور پر لعنت نہیں بلکہ اس کام کی سنگینی مراد ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ کام انتہائی نفرت کے قابل ہے۔ (فتح الباري: 99/12)
(3) اس حدیث سے خوارج نے استدلال کیا ہے کہ ہر قلیل وکثیر کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا لیکن یہ استدلال انتہائی کمزور ہے کیونکہ جب آیت کریمہ: ’’چور مرد یا عورت جب چوری کرے تواس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔‘‘ (المائدة: 5:38) نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کے ظاہری مفہوم کے پیش نظر مذکورہ ارشاد فرمایا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ ربع دینار کی مالیت چوری کرنے پر ہاتھ کاٹا جائے گا۔ وہ مقدار مقرر ہی اجمال آیت کا بیان ہے، لہٰذا اس مقرر مقدار ہی کو اختیار کرنا چاہیے۔ (فتح الباري: 100/12)