باب: جب امام کو نماز کے لیے بلایا جائے اور اس کے ہاتھ میں کھانے کی چیز ہو تو وہ کیا کرے؟
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: When the Imam is called for As-Salat (the prayer) while he has in his hands something to eat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
685.
حضرت عمرو بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو شانے کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھاتے ہوئے دیکھا، اتنے میں آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا، آپ نے چھری کو وہیں پھینک دیا اور نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، چنانچہ آپ نے نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا۔
تشریح:
(1) اس عنوان اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تقدیم طعام کا حکم بطور استحباب ہے۔ بعض حضرات نے اس سلسلے میں اس طرح وضاحت کی ہے کہ تقدیم طعام کی اجازت اس شخص کے لیے ہے جس نے ابھی کھانا شروع نہیں کیا اور جس نے اقامت سے پہلے کھانا شروع کردیا تھا، پھر نماز کے لیے تکبیر ہوئی تو اسے نماز کے لیے اٹھ جانا چاہیے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ گویا امام بخاری ؒ کے نزدیک دونوں صورتوں کا حکم الگ الگ ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری کے نزدیک امام اور غیر امام کا حکم الگ الگ ہو، یعنی تقدیم طعام کا حکم عام لوگوں کےلیے ہے اور امام کے لیے یہ ہے کہ وہ پہلے نماز پڑھائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسی وقت کھانا چھوڑ دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی اگر کھانے میں مشغول رہتا ہے تو اس کی وجہ سے لوگ پریشان ہوں گے اور انھیں بلاوجہ انتظار کی زحمت برداشت کرنا پڑے گی۔ (2) علامہ سندھی لکھتے ہیں کہ تقدیم طعام اس صورت میں ہے جب بھوک شدید ہو اور کھانا چھوڑ کر نماز شروع کرنے میں خشوع کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ وہ کھانا کھا رہے تھے اور تنور میں گوشت بھونا جا رہا تھا، اتنے میں مؤذن نے تکبیر کہنے کا ارداہ کیا تو حضرت ابن عباس ؓ نے اسے فرمایا: جلدی مت کرو! مبادا دوران نماز میں ہمارا خیال ادھر رہے۔ البتہ جب نمازی اپنی اس قدر حاجت پوری کرچکا ہو کہ خشوع کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو نماز کو مقدم رکھنا چاہیے۔ (حاشیة السندي:123/1) کھانا کھانے کی رخصت کو انتہائی مجبوری کی صورت پر محمول کرنا چاہیے، اسے عادت اور معمول نہیں بنانا چاہیے۔ اور بلاوجہ نماز باجماعت ترک نہیں کرنی چاہیے۔ انسان کو دنیا میں زیادہ سے زیادہ اعمال خیر ذخیرہ کرنے چاہئیں تاکہ قیامت کے دن کام آئیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ﴾ ’’ہر شخص کو سوچنا چاہیے کہ اس نے کل آخرت کے لیے کیا ذخیرہ کیا ہے؟‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
666
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
675
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
675
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
675
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت عمرو بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو شانے کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھاتے ہوئے دیکھا، اتنے میں آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا، آپ نے چھری کو وہیں پھینک دیا اور نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، چنانچہ آپ نے نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس عنوان اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تقدیم طعام کا حکم بطور استحباب ہے۔ بعض حضرات نے اس سلسلے میں اس طرح وضاحت کی ہے کہ تقدیم طعام کی اجازت اس شخص کے لیے ہے جس نے ابھی کھانا شروع نہیں کیا اور جس نے اقامت سے پہلے کھانا شروع کردیا تھا، پھر نماز کے لیے تکبیر ہوئی تو اسے نماز کے لیے اٹھ جانا چاہیے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ گویا امام بخاری ؒ کے نزدیک دونوں صورتوں کا حکم الگ الگ ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری کے نزدیک امام اور غیر امام کا حکم الگ الگ ہو، یعنی تقدیم طعام کا حکم عام لوگوں کےلیے ہے اور امام کے لیے یہ ہے کہ وہ پہلے نماز پڑھائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسی وقت کھانا چھوڑ دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی اگر کھانے میں مشغول رہتا ہے تو اس کی وجہ سے لوگ پریشان ہوں گے اور انھیں بلاوجہ انتظار کی زحمت برداشت کرنا پڑے گی۔ (2) علامہ سندھی لکھتے ہیں کہ تقدیم طعام اس صورت میں ہے جب بھوک شدید ہو اور کھانا چھوڑ کر نماز شروع کرنے میں خشوع کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ وہ کھانا کھا رہے تھے اور تنور میں گوشت بھونا جا رہا تھا، اتنے میں مؤذن نے تکبیر کہنے کا ارداہ کیا تو حضرت ابن عباس ؓ نے اسے فرمایا: جلدی مت کرو! مبادا دوران نماز میں ہمارا خیال ادھر رہے۔ البتہ جب نمازی اپنی اس قدر حاجت پوری کرچکا ہو کہ خشوع کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو نماز کو مقدم رکھنا چاہیے۔ (حاشیة السندي:123/1) کھانا کھانے کی رخصت کو انتہائی مجبوری کی صورت پر محمول کرنا چاہیے، اسے عادت اور معمول نہیں بنانا چاہیے۔ اور بلاوجہ نماز باجماعت ترک نہیں کرنی چاہیے۔ انسان کو دنیا میں زیادہ سے زیادہ اعمال خیر ذخیرہ کرنے چاہئیں تاکہ قیامت کے دن کام آئیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ﴾ ’’ہر شخص کو سوچنا چاہیے کہ اس نے کل آخرت کے لیے کیا ذخیرہ کیا ہے؟‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے صالح بن کیسان سے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے کہا کہ مجھ کو جعفر بن عمرو بن امیہ نے خبر دی کہ ان کے باپ عمرو بن امیہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ بکری کی ران کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے۔ اتنے میں آپ نماز کے لیے بلائے گئے آپ کھڑے ہوئے اور چھری ڈال دی، پھر آپ نے نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
اس باب اور ا س کے تحت اس حدیث کے لانے سے حضرت امام بخاری ؒ کا یہ ثابت کرنا منظور ہے کہ پچھلی حدیث کا حکم استحباباً تھا وجوباً نہ تھا۔ ورنہ آنحضرت ﷺ کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے کیوں جاتے بعض کہتے ہیں کہ امام کا حکم علیحدہ ہے۔ اسے کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے جانا چاہئے۔ حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ja'far bin 'Amr bin Umaiya (RA): My father said, "I saw Allah's Apostle (ﷺ) eating a piece of meat from the shoulder of a sheep and he was called for the prayer. He stood up, put down the knife and prayed but did not perform ablutilon.''