صحیح بخاری
3. کتاب: علم کے بیان میں
11. باب:نبی ﷺ کا لوگوں کی رعایت کرتے ہوئےنصیحت فرمانے اور تعلیم دینے کے بیان میں تا کہ انہیں ناگوار نہ ہو۔
صحيح البخاري
3. كتاب العلم
11. بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَتَخَوَّلُهُمْ بِالْمَوْعِظَةِ وَالعِلْمِ كَيْ لاَ يَنْفِرُوا
Sahi-Bukhari
3. Knowledge
11. Chapter: The Prophet (saws) used to take care of the people in preaching by selecting a suitable time so that they might not run away (never made them averse or bored them with religious talk and knowledge all the time)
باب:نبی ﷺ کا لوگوں کی رعایت کرتے ہوئےنصیحت فرمانے اور تعلیم دینے کے بیان میں تا کہ انہیں ناگوار نہ ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: The Prophet (saws) used to take care of the people in preaching by selecting a suitable time so that they might not run away (never made them averse or bored them with religious talk and knowledge all the time))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
69.
حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ہمارے اُکتا جانے کے اندیشے سے ہمیں وعظ و نصیحت کرنے کے لیے وقت اور موقع ومحل کا خیال رکھتے تھے۔
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تبلیغ و تعلیم کے لیے کچھ ایسے اوقات مقرر کیے جائیں جن میں سامعین اور متعلمین فراغت اور اطمینان کے ساتھ اسے جاری رکھ سکیں اور خوش دلی کے ساتھ اس کے سننے اور اس سے مستفید ہونے میں لگے رہیں اگر ہر وقت تبلیغ ہوتی رہے یا تعلیم دی جاتی رہے تو اس سے سامعین اور متعلمین اکتا کر کوتاہی کرنے لگ جاتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نشاط وملال اور حوائج و فراغت کا پورا خیال رکھتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی صرف جمعرات کے دن وعظ و تبلیغ کرتے لوگوں کے اصرار کے باوجود روزانہ تذکیر و تبلیغ سے احتراز کرتے تھے۔(فتح الباري: 214/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
68
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
68
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
68
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
68
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
۔پہلے ابواب میں تبلغ اور حصول علم کی اہمیت بیان کی گئی تھی اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر وقت تبلیغ و تعلیم ہی میں لگا رہے بلکہ ان کے لیے ایسا طریقہ کاروضع کیا جائے جو لوگوں کے لیے باعث کشش ہو کیونکہ ہر وقت ایک ہی کام کرنے سے دل اکتاجاتا ہے اور طبیعت میں نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔
حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ہمارے اُکتا جانے کے اندیشے سے ہمیں وعظ و نصیحت کرنے کے لیے وقت اور موقع ومحل کا خیال رکھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تبلیغ و تعلیم کے لیے کچھ ایسے اوقات مقرر کیے جائیں جن میں سامعین اور متعلمین فراغت اور اطمینان کے ساتھ اسے جاری رکھ سکیں اور خوش دلی کے ساتھ اس کے سننے اور اس سے مستفید ہونے میں لگے رہیں اگر ہر وقت تبلیغ ہوتی رہے یا تعلیم دی جاتی رہے تو اس سے سامعین اور متعلمین اکتا کر کوتاہی کرنے لگ جاتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نشاط وملال اور حوائج و فراغت کا پورا خیال رکھتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی صرف جمعرات کے دن وعظ و تبلیغ کرتے لوگوں کے اصرار کے باوجود روزانہ تذکیر و تبلیغ سے احتراز کرتے تھے۔(فتح الباري: 214/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، انھیں سفیان نے اعمش سے خبر دی، وہ ابووائل سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نصیحت فرمانے کے لیے کچھ دن مقرر کر دیئے تھے اس ڈر سے کہ کہیں ہم کبیدہ خاطر نہ ہو جائیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Mas'ud (RA): The Prophet (ﷺ) used to take care of us in preaching by selecting a suitable time, so that we might not get bored. (He abstained from pestering us with sermons and knowledge all the time).