تشریح:
1۔ حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ایمان افروز بات مسجد کوفہ میں ارشاد فرمائی جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مظلومانہ طور پر شہید کر دیا گیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مذکورہ سلوک کرتے تھے۔ (حٰم السجدة:30/41، 32) حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی زوجہ محترمہ حضرت فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے ذلت ورسوائی اور مارپیٹ کو گوارا کر لیا لیکن اسلام کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باغیوں کے ہاتھوں قتل ہونا گوارا کر لیا لیکن ان کا غیر شرعی کہا نہ مانا۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث 3862) واضح رہے کہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہنوئی تھے اور ان کی زوجہ محترمہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن تھیں۔ ان کی قراءت سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دل موم ہوا تھا۔ حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بیان سے اہل کوفہ کو شرم دلاتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو اس وقت کافر ہونے کی وجہ سے ہم پر سختی کرتے تھے اور تم نے مسلمان ہونے کے باوجود خلیفہ راشد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے مکان میں بند کر دیا، پھر دشمنی اور ظلم کے طور پر انھیں شہید کر دیا۔ انھوں نے خود قتل ہونا گوارا کر لیا لیکن تمھیں قتل کرنا گوارانہ کیا۔