تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک دوسرے انداز سے حیلہ سازوں کی قلعی کھولتے ہیں۔ پہلی حدیث میں ایک معصوم کنواری کے متعلق ایک بدنام زمانہ حیلے کا ذکر کیا تھا اور اب ایک شوہر دیدہ عورت کے ساتھ مکروفریب کی چال کو بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص دو جھوٹے گواہ عدالت میں پیش کر دے کہ میں نے فلاں عورت سے اس کے حکم کے مطابق نکاح کیا ہے اور عدالت بھی گواہی سن کر اس مرد کے حق میں فیصلہ دے دے تو وہ شوہر دیدہ عورت اس کی بیوی ہوگئی۔ اس کے ساتھ جماع کرنا اس کے لیے حلال ہوگا اور آخرت میں اس کے لیے کوئی باز پرس نہیں ہوگی کیونکہ ایسے حالات میں عدالت کا فیصلہ ظاہری اور باطنی اعتبار سے نافذ ہو جاتا ہے، حالانکہ ایسا مکار انسان، جھوٹے گواہ اور اس کے جواز کا فیصلہ دینے والا جج اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین سزا کے حقدار ہوں گے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ اگرچہ پہلے نکاح نہیں تھا لیکن قاضی کا فیصلہ کرنا گویا نکاح کرنا ہے، یعنی قاضی کو ولایت نکاح حاصل ہے اور اس نے اپنا اختیار استعمال کر کے فیصلہ دیا ہے جو ہر اعتبار سے نافذ ہوگا۔
2۔ ان کے ہاں معاملات کی دو قسمیں ہیں: ایک املاک مرسلہ اور دوسرے عقود وغیرہ۔ دوسری قسم میں قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی طور پرنافذ ہو جائے گا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جب میں کسی کی چرب زبانی کی بنا پر ا سکے حق میں فیصلہ دے دوں تو گویا میں اسے جہنم کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قطعی فرمان دونوں قسم کے معاملات کے لیے ہے، لہذا عدالتی فیصلہ جھگڑا نمٹانے کے لیے ظاہری طور پر نافذ ہو سکتا ہے لیکن باطنی طور پر اسے نافذ کرنا سینہ زوری ہے۔ دراصل اس قسم کے فیصلے ہی اسلام کی بدنامی کا باعث ہیں اور جگ ہنسائی کا سامان فراہم کرتے ہین کاش کہ حیلہ گر حضرات ہوش کے ناخن لیں اور باطل کا دفاع کرنے کے بجائے حق بات کو اختیار کریں۔