تشریح:
1۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو واقعی یہ اعزاز حاصل تھا کہ آپ کی ذات گرامی فتنوں کی روک تھام کے لیے ایک بند دروازے کی حیثیت رکھتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کی عزت بحال رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اے اللہ! دو بندوں میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعے سے اسلام کی مدد فرما۔ وہ آدمی ابوجہل اور عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے اپنے محبوب بندے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب فرمایا۔ (مسند ُحمد: 2/95) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعد عزت کے ساتھ سر اونچا کر کے چلنے کا موقع میسر آیا۔ (صحیح البخارذو مناقب الُنصارو حدیث: 3863) ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ""عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ! جس گلی کوچے میں تم جاتے ہو وہاں سے فتنوں کا سرغنہ ابلیس لعین بھاگ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 3683)
2۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ واقعی فتنوں کے سامنے ایک بند دروازے کی حیثیت رکھتے تھے۔ ایک آدمی نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: ابوسلیمان! آپ اللہ تعالیٰ سے ڈریں، فتنوں کا دورشروع ہو چکا ہے۔ یہ سن کر انھوں نے فرمایا: جب تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ زندہ ہیں فتنوں سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ یہ فتنے ان کے بعد ہوں گے، چنانچہ آدمی سوچ بچار کر کے کہے گا کہ کوئی ایسی جگہ میسر آئے جہاں ان کے اثرات نہ ہوں تاکہ وہ وہاں چلا جائے لیکن کوئی ایسی جائے پناہ نہیں ملے گی۔ یہ وہ ایام ہوں گے جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل وغارت کے دن (ایام ہرج) قرار دیا ہے اور یہ قیامت سے پہلے ہوں گے۔ ہم اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں کہ وہ دن ہمیں یا آپ کو دیکھنے پڑیں۔ (مسندأحمد: 90/4) بہرحال اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو واقعی فتنوں کے لیے بند دروازہ بنایا، یہ دروازہ ٹوٹتے ہی فتنوں نے امت مسلمہ کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ واللہ المستعان۔