تشریح:
1۔ اس حدیث میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں: (1) فقہ فی الدین کی عظمت۔ (2)۔ تفقہ فی الدین عطیہ الٰہی ہے۔ (3)۔ اس کے حاملین قیامت تک رہیں گے۔ جہاں تک اس کی عظمت کا تعلق ہے وہ تو محتاج بیان نہیں کیونکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان دینی معاملات سے بے بہرہ اور قواعد اسلام سے نابلد ہے، وہ خیرو برکت سے تہی دست ہے۔
2۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو انسان دینی امور میں تفقہ حاصل نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ اگرچہ اس کی سند کمزور ہے تاہم اس کے معنی صحیح ہیں نیز تفقہ فی الدین عطیہ الٰہی ہے صرف محنت اور کوشش سے حاصل نہیں ہوتا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے جو علوم دیے گئے ہیں میں انھیں تقسیم کرنے والا ہوں۔ میری طرف سے کوئی روک یا بخل نہیں ہے۔ جس قدر کسی کے دل میں اس کے حصول کی تڑپ ہوگی۔ وہ اتنا ہی ان علوم سے بہرہ ور ہوگا۔
3۔ اس کی عظمت بایں طور بھی ہے کہ ان علوم سے فیض یاب ہونے والے تاقیامت رہیں گے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگرطائفہ منصورہ سے مراد اہل حدیث نہیں ہیں تو مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون سا گروہ ہو سکتا ہے۔ اس سے بھی محدثین عظام کی عظمت ثابت ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 216/1) امر اللہ سے مراد وہ ہوا ہے جو قرب قیامت کے وقت چلے گی اور اہل ایمان کی ارواح کو قبض کر لے گی۔ اس کے بعد صرف اشرار وکفار باقی رہ جائیں گے پھر انھی پر قیامت قائم ہوگی۔