صحیح بخاری
3. کتاب: علم کے بیان میں
12. باب:اس بارے میں کہ کوئی شخص اہل علم کے لئے کچھ دن مقرر کردے (تویہ جائز ہے)یعنی استاد اپنے شاگردوں کے لئے اوقات مقرر کر سکتاہے۔
صحيح البخاري
3. كتاب العلم
12. بَابُ مَنْ جَعَلَ لِأَهْلِ العِلْمِ أَيَّامًا مَعْلُومَةً
Sahi-Bukhari
3. Knowledge
12. Chapter: Whoever fixed a special day for giving (a religious talk) to the students
باب:اس بارے میں کہ کوئی شخص اہل علم کے لئے کچھ دن مقرر کردے (تویہ جائز ہے)یعنی استاد اپنے شاگردوں کے لئے اوقات مقرر کر سکتاہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: Whoever fixed a special day for giving (a religious talk) to the students)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
71.
حضرت ابو وائل سے روایت ہے، انہوں نے کہا: عبداللہ بن مسعود ؓ ہر جمعرات لوگوں کو وعظ کیا کرتے تھے۔ ایک شخص نے ان سے عرض کیا: اے عبدالرحمٰن! میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں روزانہ وعظ و نصیحت فرمایا کریں۔ آپ نے فرمایا: مجھے اس کام سے یہ چیز مانع ہے کہ میں تمہیں اکتاہٹ میں نہیں ڈالنا چاہتا اور میں پندونصیحت میں تمہارے جذبات کا خیال رکھتا ہوں جس طرح نبی ﷺ وعظ کرتے وقت ہمارے جذبات کا خیال رکھتے تھے تاکہ ہم اُکتا نہ جائیں۔
تشریح:
1۔ تعلیمی نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے اوقات تعلیم کی تقسیم اور تعیین ضروری ہے، اسی طرح وعظ و نصیحت کے لیے اگر کوئی دن مقرر کر لیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور نہ اسے بدعت ہی کہا جا سکتا ہے، بلکہ ایسا کرنا ضروری ہے تاکہ معلمین اور متعلمین کا تعلیمی وقت ضائع نہ ہو۔ اگر اوقات کی تعیین نہ ہوتو ممکن ہے کہ استاد تو موجود ہو لیکن طلباء لاپتہ ہوں یا طلباء تو حاضر ہوں لیکن معلم حضرات غائب ہوں لہٰذا تعلیمی انتظام کے لیے ایام کی تعیین میں کوئی حرج نہیں، اس کی بنیاد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں قائم ہو چکی تھی اور اعیان صحابہ بھی اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مدعا ثابت کرنے کے لیے ایک موقوف حدیث کا سہارا لیا ہے لیکن چونکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک عمل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے استنباط کیا ہے اس لیے دن کی تعیین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
70
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
70
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
70
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
70
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
علم ایک ایسی عظیم الشان چیز ہے جس کے لیے تقسیم کار اور تعلیمی اوقات کا ہونا ضروری ہے تاکہ تعلیم و تعلم کے عمل میں سہولت رہے۔
حضرت ابو وائل سے روایت ہے، انہوں نے کہا: عبداللہ بن مسعود ؓ ہر جمعرات لوگوں کو وعظ کیا کرتے تھے۔ ایک شخص نے ان سے عرض کیا: اے عبدالرحمٰن! میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں روزانہ وعظ و نصیحت فرمایا کریں۔ آپ نے فرمایا: مجھے اس کام سے یہ چیز مانع ہے کہ میں تمہیں اکتاہٹ میں نہیں ڈالنا چاہتا اور میں پندونصیحت میں تمہارے جذبات کا خیال رکھتا ہوں جس طرح نبی ﷺ وعظ کرتے وقت ہمارے جذبات کا خیال رکھتے تھے تاکہ ہم اُکتا نہ جائیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ تعلیمی نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے اوقات تعلیم کی تقسیم اور تعیین ضروری ہے، اسی طرح وعظ و نصیحت کے لیے اگر کوئی دن مقرر کر لیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور نہ اسے بدعت ہی کہا جا سکتا ہے، بلکہ ایسا کرنا ضروری ہے تاکہ معلمین اور متعلمین کا تعلیمی وقت ضائع نہ ہو۔ اگر اوقات کی تعیین نہ ہوتو ممکن ہے کہ استاد تو موجود ہو لیکن طلباء لاپتہ ہوں یا طلباء تو حاضر ہوں لیکن معلم حضرات غائب ہوں لہٰذا تعلیمی انتظام کے لیے ایام کی تعیین میں کوئی حرج نہیں، اس کی بنیاد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں قائم ہو چکی تھی اور اعیان صحابہ بھی اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مدعا ثابت کرنے کے لیے ایک موقوف حدیث کا سہارا لیا ہے لیکن چونکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک عمل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے استنباط کیا ہے اس لیے دن کی تعیین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، ان سے جریر نے منصور کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابووائل سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ (ابن مسعود) ؓ ہر جمعرات کے دن لوگوں کو وعظ سنایا کرتے تھے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا اے ابوعبدالرحمن! میں چاہتا ہوں کہ تم ہمیں ہر روز وعظ سنایا کرو۔ انھوں نے فرمایا، تو سن لو کہ مجھے اس امر سے کوئی چیز مانع ہے تو یہ کہ میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ کہیں تم تنگ نہ ہو جاؤ اور میں وعظ میں تمہاری فرصت کا وقت تلاش کیا کرتا ہوں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ اس خیال سے کہ ہم کبیدہ خاطر نہ ہو جائیں، وعظ کے لیے ہمارے اوقات فرصت کا خیال رکھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
احادیث بالا اور اس باب سے مقصود اساتذہ کو یہ بتلانا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے ذہن کا خیال رکھیں، تعلیم میں اس قدر انہماک اور شدت صحیح نہیں کہ طلباءکے دماغ تھک جائیں اور وہ اپنے اندر بے دلی اور کم رغبتی محسوس کرنے لگ جائیں۔ اسی لیے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے درس ومواعظ کے لیے ہفتہ میں صرف جمعرات کا دن مقرر کررکھا تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نفل عبادت اتنی نہ کی جائے کہ دل میں بے رغبتی اور ملال پیدا ہو۔ بہرحال اصول تعلیم یہ ہے کہ "یَسِّرُوْا وَ لَاتُعَسِّرُوْا وَ بَشِّرُوْا وَ لَا تُنَفِّرُوْا"
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Wail (RA): 'Abdullah used to give a religious talk to the people on every Thursday. Once a man said, "O Aba 'Abdur-Rahman! (By Allah) I wish if you could preach us daily." He replied, "The only thing which prevents me from doing so, is that I hate to bore you, and no doubt I take care of you in preaching by selecting a suitable time just as the Prophet (ﷺ) used to do with us, for fear of making us bored."