تشریح:
1۔گوشہ نشین صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اندرونی فسادات اور باہمی لڑائی کے متعلق یہ نظریہ تھا کہ حق وصداقت کا معیار کفار سے جنگ اور آپس میں امن وسلامتی ہونا چاہیے اسی لیے وہ ان فسادات سے کنارہ کش اور الگ تھلگ رہے۔ سیدنا حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خانہ جنگی میں مبتلا حضرات کے متعلق اپنے بھر پور جذبات کا اظہار کیا۔
2۔ہمارا رجحان یہ ہے کہ اپنی سمجھ کے مطابق یہ حضرات بھی اللہ تعالیٰ کے لیے لڑے اور انھوں نے امت کی بھلائی کو پیش نظر رکھا اگرچہ نتائج کچھ بھی سامنے آئے لیکن ہمیں ان کی نیت پر کوئی شبہ نہیں ہے۔ چونکہ ان کے نفوس پاک تھے، اس لیے اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو وہی کام کرتے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے عین مطابق ہوتے۔
3۔اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث میں موجود لوگوں پر تنقید فرمائی کہ وہ بظاہر دین کے استحکام اور حق کی نصرت کے لیے لڑتے ہیں، حالانکہ اندرونی طور پر ان کی نیتوں میں فتور ہےاور وہ دنیا طلبی کے لیے لڑتے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ ابوبرزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باتیں سن کر میرے باپ نےکہا: آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے کسی کو نہیں چھوڑا۔ انھوں نے فرمایا: مجھے تو آج ان میں خیروبرکت کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا، ہاں بہت قلیل تعداد میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں۔ جنھوں نے دوسروں کے مال سے اپنے پیٹ محفوظ رکھے ہیں اور دوسرے لوگوں کے خون ناحق ان کی گردنوں میں نہیں ہیں۔ (فتح الباري: 92/13)
4۔بہرحال ایسے حالات میں فتنوں سے الگ تھلگ رہنے ہی میں عافیت ہے ،خصوصاً وہ فتنے جو نفاق کی پیداوار ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ جنگ وقتال میں قطعاً حصہ نہیں لینا چاہیے، بالخصوص جب جنگ کی بنیاد ہوس ملک گیری ہو۔ واللہ المستعان۔