تشریح:
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مشتمل شوری تشکیل دی اور فرمایا: اگر میری موت جلد واقع ہو جائے تو یہ حضرات جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آخری وقت تک راضی رہے خلیفے کا انتخاب کریں۔ مسلمانوں میں سے کوئی شخص بھی ملکی امور کوسمجھنے اور سیاست کرنے میں ان کے ہم پلہ نہ تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن کی تحریک پر حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں دست بردار ہو گئے۔ حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلافت کے سلسلے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اب معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں میں سے ایک کے انتخاب کا تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دن رات بھاگ دوڑ اور محنت کی اور آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برابر کسی دوسرے کو نہیں سمجھتے۔ اس لیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے طویل سر گوشی کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اگرچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیداور توقع تھی کہ ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے گی لیکن لوگوں کے اتفاق نے انھیں مجبور کیا کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منتخب کریں اس موقع پر لشکروں کے سپہ سالار موجود تھے ان میں شام کے امیرحضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حمص کے امیر حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفے کے امیر حضرت مغیرہ بن شعبہ، بصرے کے امیر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مصر کے امیر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ قابل ذکر ہیں اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر سب لوگ متفق تھے۔۔۔ رضی اللہ عنه۔