قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ (بَابٌ: كَيْفَ يُبَايِعُ الإِمَامُ النَّاسَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

7207. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَنَّ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ الرَّهْطَ الَّذِينَ وَلَّاهُمْ عُمَرُ اجْتَمَعُوا فَتَشَاوَرُوا فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ لَسْتُ بِالَّذِي أُنَافِسُكُمْ عَلَى هَذَا الْأَمْرِ وَلَكِنَّكُمْ إِنْ شِئْتُمْ اخْتَرْتُ لَكُمْ مِنْكُمْ فَجَعَلُوا ذَلِكَ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَلَمَّا وَلَّوْا عَبْدَ الرَّحْمَنِ أَمْرَهُمْ فَمَالَ النَّاسُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَتَّى مَا أَرَى أَحَدًا مِنْ النَّاسِ يَتْبَعُ أُولَئِكَ الرَّهْطَ وَلَا يَطَأُ عَقِبَهُ وَمَالَ النَّاسُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُشَاوِرُونَهُ تِلْكَ اللَّيَالِي حَتَّى إِذَا كَانَتْ اللَّيْلَةُ الَّتِي أَصْبَحْنَا مِنْهَا فَبَايَعْنَا عُثْمَانَ قَالَ الْمِسْوَرُ طَرَقَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بَعْدَ هَجْعٍ مِنْ اللَّيْلِ فَضَرَبَ الْبَابَ حَتَّى اسْتَيْقَظْتُ فَقَالَ أَرَاكَ نَائِمًا فَوَاللَّهِ مَا اكْتَحَلْتُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ بِكَبِيرِ نَوْمٍ انْطَلِقْ فَادْعُ الزُّبَيْرَ وَسَعْدًا فَدَعَوْتُهُمَا لَهُ فَشَاوَرَهُمَا ثُمَّ دَعَانِي فَقَالَ ادْعُ لِي عَلِيًّا فَدَعَوْتُهُ فَنَاجَاهُ حَتَّى ابْهَارَّ اللَّيْلُ ثُمَّ قَامَ عَلِيٌّ مِنْ عِنْدِهِ وَهُوَ عَلَى طَمَعٍ وَقَدْ كَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَخْشَى مِنْ عَلِيٍّ شَيْئًا ثُمَّ قَالَ ادْعُ لِي عُثْمَانَ فَدَعَوْتُهُ فَنَاجَاهُ حَتَّى فَرَّقَ بَيْنَهُمَا الْمُؤَذِّنُ بِالصُّبْحِ فَلَمَّا صَلَّى لِلنَّاسِ الصُّبْحَ وَاجْتَمَعَ أُولَئِكَ الرَّهْطُ عِنْدَ الْمِنْبَرِ فَأَرْسَلَ إِلَى مَنْ كَانَ حَاضِرًا مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَأَرْسَلَ إِلَى أُمَرَاءِ الْأَجْنَادِ وَكَانُوا وَافَوْا تِلْكَ الْحَجَّةَ مَعَ عُمَرَ فَلَمَّا اجْتَمَعُوا تَشَهَّدَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ يَا عَلِيُّ إِنِّي قَدْ نَظَرْتُ فِي أَمْرِ النَّاسِ فَلَمْ أَرَهُمْ يَعْدِلُونَ بِعُثْمَانَ فَلَا تَجْعَلَنَّ عَلَى نَفْسِكَ سَبِيلًا فَقَالَ أُبَايِعُكَ عَلَى سُنَّةِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْخَلِيفَتَيْنِ مِنْ بَعْدِهِ فَبَايَعَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَبَايَعَهُ النَّاسُ الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ وَأُمَرَاءُ الْأَجْنَادِ وَالْمُسْلِمُونَ

مترجم:

7207.

سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: وہ لوگ جنہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ مقرر کرنے کا اختیار دیا تھا وہ جمع ہوئے اور باہم مشورہ کیا۔ ان سے سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نےکہا: میں خلافت کے سلسلے میں آپ لوگوں سے مقابلہ نہیں کروں گا لیکن اگر تم چاہتے ہو تو تم ہی میں سے کسی کو تمہارے لیے خلیفہ مقرر کر دوں، چنانچہ سب نے خلافت کا معاملہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا۔ جب انہوں نے انتخاب کی ذمہ داری ان کے سپرد کردی تو سب لوگ ان کی طرف مائل ہوگئے یہاں تک کہ میں نے کسی کو نہ دیکھا جو باقی حضرات کا پیچھا کرتا ہو یا ان کی ایڑی روندتا ہو۔ تمام لوگوں کا میلان سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی طرف ہوگیا اور وہ انہیں ان راتوں میں مشورہ دیتے رہے کہ جب وہ رات آگئی جس کی صبح ہم نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے بیعت کی۔ سیدنا مسور رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ کچھ رات گزر جانے کے بعد سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے زور سے میرا دروازہ کھٹکھٹایا حتی کہ میں بیدار ہوگیا۔ انہوں نے کہا: میرا خیال ہے کہ آپ سو رہے تھے۔ اللہ کی قسم! میں ان راتوں میں بہت کم سو سکا ہوں، آپ ابھی جائیں۔ سیدنا زبیر اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو بلا لائیں۔ میں ان دونوں بزرگوں کو بلا لایا تو انہوں نے ان دونوں سے مشورہ کیا۔ مجھے پھر بلایا اور فرمایا: سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو بلا لاؤ میں گیا اور انہیں بلا لایا تو آپ کے ساتھ مشورہ کرتے رہے حتیٰ کہ آدھی رات گزر گئی۔ پھر سیدنا علی اس حالت میں اٹھ کر گئے کہ وہ خلافت کےخواہشمند تھے۔ سیدنا عبدالرحمن ؓ کے دل میں ان کے متعلق کچھ کھٹک بھی تھی۔ پھر انہوں نے کہا: سیدنا عثمان ؓ کو بلا لاؤ، میں انہیں بلا لایا تو آپ ان سے سرگوشی کرتے رہے حتیٰ کہ مؤذن نے صبح کی اذان دے دی اور دونوں جدا جدا ہوگئے۔ جب لوگوں نے صبح کی نماز ادا کی اور وہ منبر کے پاس جمع ہوگئے تو آپ نے وہاں موجود انصار مہاجرین اور لشکروں کے قائدین کو بلایا۔ ان سب حضرات نے امسال سیدنا عمر ؓ کے ساتھ حج کیا تھا۔ جب سب لوگ جمع ہوگئے تو عبدالرحمن بن عوف ؓ نے خطبہ پڑھا اور فرمایا: اما بعد! اے علی! میں نے لوگوں کے خیالات معلوم کیے ہیں، میں نے دیکھا ہے کہ وہ سیدنا عثمان ؓ کو مقدم سمجھتے ہیں اور ان کے برابر کو خیال میں نہیں لاتے اس لیے آپ اپنے دل میں کوئی میل پیدا نہ کریں۔ پھر فرمایا: اے عثمان! میں اللہ کے دین، رسول اللہ ﷺ کی سنت اور آپ کے دور خلفاء کے طریق کے مطابق آپ کی بیعت کرتا ہوں، چنانچہ پہلے ان سے سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ نے بیعت کی، پھر سب لوگوں یعنی مہاجرین وانصار فوجوں کے قائدین اور دیگر اہل اسلام نے بیعت کی۔