تشریح:
1۔سقیفہ بنو ساعدہ ایک پنچائیت گھر تھا جس میں خاص لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیعت کی تھی۔ اس کے بعدحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجتماع عام میں اعلان کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے لیے موزوں اور مستحق ہیں۔ اس سے انھوں نے حاضرین کو ان سے بیعت کرنے کی ترغیب دلائی، پھر عام لوگوں نے ان کی بیعت کی۔ یہ بیعت ثانیہ تھی جو پہلی بیعت سے عام اور زیادہ مشہور ہے۔
2۔باب سے مناسبت یہ ہے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تم سب میں خلافت کے زیادہ مستحق اور زیادہ لائق ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن التین کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منبر پر چڑھنے کے لیے کہا اور اس پر اصرارکیا تاکہ آپ کا سب لوگوں سے تعارف ہوجائے لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تواضع اور انکسار کی وجہ سے انکار کر رہے تھے۔ (فتح الباري: 258/13)
3۔اس سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جن کا موقف ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زور اور اصرار سے ہوئی اورحضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے لائق نہیں تھے۔ یہ اس لیے بھی غلط ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس سے کیوں اتفاق کرتے؟ بہرحال حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی اس وقت خلافت کے سب سے زیادہ حق دار اور مناسب تھے اور اس پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اجماع ہے۔ واللہ المستعان۔