تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت دو احادیث ذکر کی ہیں: پہلی حدیث میں ہے کہ صف کا درست کرنا نماز کی خوبی کا ایک حصہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صف کو درست کرنا نماز کی خوبی ہے، البتہ نفس نماز میں کوئی دخل نہیں، صرف اس کے ذریعے سے نماز میں حسن پیدا ہوتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ صفوں کا برابر کرنا نماز کو قائم کرنا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر صفیں برابر نہ ہوئیں تو اقامت نماز کی بھی نفی ہوجائے گی۔
(2) امام بخاری ؒ نے مذکورہ بالا عنوان قائم کرکے تنبیہ فرمائی ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنا نماز کی ماہیت میں داخل نہیں کہ اس کی نفی سے نماز کی نفی ہوجائے اور اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ صفوں کی درستگی کو بالکل نماز سے الگ کر دیا جائے، بلکہ صف بندی نماز کے مکملات میں سے ہے۔
(3) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ابن حزم ؒ نے (إقامة الصلاة) کے الفاظ سے صف بندی کو واجب قرار دیا ہے، کیونکہ نماز کا قائم کرنا واجب ہےاور صف بندی (إقامة الصلاة) کا حصہ ہے، لہٰذا جو فرض کا حصہ ہے وہ بھی فرض ہوا، لیکن اس حدیث کے تمام راوی مذکورہ الفاظ بیان کرنے میں متفق نہیں بلکہ اکثر راویوں نے (إقامة الصلاة) کے بجائے (تمام الصلاة) کے الفاظ ذکر کیے ہیں۔ شارح بخاری ابن بطال ؒ نے حسن الصلاة کے پیش نظر کہا ہے کہ صف بندی سنت کا درجہ رکھتی ہے اور کسی چیز کا حسن اس کے تمام ہونے سے زائد ہے۔ ابن دقیق العید ؒ نے کہا ہے کہ حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں صف بندی مستحب ہے، کیونکہ عرف میں تمام شے بھی حقیقت پر زائد چیز ہے۔ (فتح الباري:271/2) بہر حال نماز میں صف بندی کا اہتمام انتہائی ضروری ہے، اس سے نماز میں حسن پیدا ہوتا ہے اور ایسا کرنا نماز کی تکمیل ہے۔ صفوں کو ٹیڑھا رکھنا شیطان کو دخل اندازی کا موقع فراہم کرنا ہے, جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ والله أعلم۔ صف بندی کے وجوب یا عدم وجوب کی تفصیل آئندہ حدیث کے تحت بیان ہوگی۔