باب: اس سے متعلق جو مقتدیوں کو امام کی تکبیر سنائے۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: One who repeats the Takbir (Allahu Akbar) of the Imam so that the people may hear it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
723.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب نبی ﷺ مرض فات میں مبتلا ہوئے تو آپ کے پاس حضرت بلال ؓ نماز کی اطلاع دینے کے لیے آئے۔ آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ ابوبکر ایک نرم دل آدمی ہیں، اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے اور قراءت پر قادر نہیں ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر ؓ سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔‘‘ میں نے پھر وہی عرض کیا تو آپ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا: ’’تم تو یوسف ؑ والی عورتوں کی مثل ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے نماز پڑھانا شروع کی تو نبی ﷺ دو آدمیوں کے سہارے باہر تشریف لائے، گویا میں اس وقت بھی آپ کی طرف دیکھ رہی ہوں کہ آپ کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹتے جاتے تھے۔ جب حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے مگر آپ ﷺ نے اشارے سے فرمایا کہ نماز پڑھاتے رہو لیکن ابوبکر ؓ کچھ پیچھے ہٹ گئے اور نبی ﷺ ان کے پہلو میں بیٹح گئے۔ حضرت ابوبکر ؓ لوگوں کو آپ کی تکبیرات سناتے تھے۔ محاضر نے امام اعمش سے روایت کرنے میں عبداللہ بن داود کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کررہے تھے اور دوسرے مقتدی حضرت ابوبکر ؓ کی اقتدا میں تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:713) اس روایت نے وضاحت کردی کہ حضرت ابوبکر ؓ صرف رسول اللہ ﷺ کی تکبیرات لوگوں کو سنا رہے تھے۔ آپ لوگوں کے امام نہیں تھے۔ امامت کے فرائض رسول اللہ ﷺ ہی ادا کررہے تھے۔ (فتح الباري:264/2) اس حدیث کی تشریح پہلے گزرچکی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
704
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
712
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
712
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
712
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
وضاحت: اگر امام کی آواز کسی وجہ سے پست ہو یا مقتدی زیادہ ہوں تو امام کی تکبیرات لوگوں تک پہنچانے کے لیے کسی کو بطور مکبر مقرر کیا جا سکتا ہے، لیکن سپیکر کی موجودگی میں آج اس کی ضرورت نہیں ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب نبی ﷺ مرض فات میں مبتلا ہوئے تو آپ کے پاس حضرت بلال ؓ نماز کی اطلاع دینے کے لیے آئے۔ آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ ابوبکر ایک نرم دل آدمی ہیں، اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے اور قراءت پر قادر نہیں ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر ؓ سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔‘‘ میں نے پھر وہی عرض کیا تو آپ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا: ’’تم تو یوسف ؑ والی عورتوں کی مثل ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے نماز پڑھانا شروع کی تو نبی ﷺ دو آدمیوں کے سہارے باہر تشریف لائے، گویا میں اس وقت بھی آپ کی طرف دیکھ رہی ہوں کہ آپ کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹتے جاتے تھے۔ جب حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے مگر آپ ﷺ نے اشارے سے فرمایا کہ نماز پڑھاتے رہو لیکن ابوبکر ؓ کچھ پیچھے ہٹ گئے اور نبی ﷺ ان کے پہلو میں بیٹح گئے۔ حضرت ابوبکر ؓ لوگوں کو آپ کی تکبیرات سناتے تھے۔ محاضر نے امام اعمش سے روایت کرنے میں عبداللہ بن داود کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کررہے تھے اور دوسرے مقتدی حضرت ابوبکر ؓ کی اقتدا میں تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:713) اس روایت نے وضاحت کردی کہ حضرت ابوبکر ؓ صرف رسول اللہ ﷺ کی تکبیرات لوگوں کو سنا رہے تھے۔ آپ لوگوں کے امام نہیں تھے۔ امامت کے فرائض رسول اللہ ﷺ ہی ادا کررہے تھے۔ (فتح الباري:264/2) اس حدیث کی تشریح پہلے گزرچکی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن داؤد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے ابراہیم نخعی سے بیان کیا، انہوں نے اسود سے، انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہ آپ نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ کے مرض الوفات میں حضرت بلال ؓ نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر خدمت ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ میں نے عرض کیا کہ ابوبکر کچے دل کے آدمی ہیں اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رو دیں گے اور قرآت نہ کر سکیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو وہ نماز پڑھائیں۔ میں نے وہی عذر پھر دہرایا۔ پھر آپ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا کہ تم لوگ تو بالکل صواحب یوسف کی طرح ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ خیر ابوبکر ؓ نے نماز شروع کرا دی۔ پھر نبی کریم ﷺ (اپنا مزاج ذرا ہلکا پا کر) دو آدمیوں کا سہارا لیے ہوئے باہر تشریف لائے۔ گویا میری نظروں کے سامنے وہ منظر ہے کہ آپ کے قدم زمین پر نشان کر رہے تھے۔ ابوبکر آپ کو دیکھ کر ہٹنے لگے۔ لیکن آپ نے اشارہ سے انھیں نماز پڑھانے کے لیے کہا۔ ابوبکر پیچھے ہٹ گئے اور نبی کریم ﷺ ان کے بازو میں بیٹھے۔ حضرت ابوبکر ؓ لوگوں کو نبی کریم ﷺ کی تکبیر سنا رہے تھے۔ عبداللہ بن داؤد کے ساتھ اس حدیث کو محاضر نے بھی اعمش سے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
جب مقتدی زیادہ ہوں تو دوسرا شخص تکبیر زور سے پکارے تاکہ سب کو آواز پہنچ جائے۔ آج کل اس مقصد کے لیے ایک آلہ وجود میں آگیا ہے جسے آواز پہچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ اکثر علماء کے نزدیک جائز قرار دیا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): When the Prophet, became ill in his fatal illness, Bilal (RA) came to inform him about the prayer, and the Prophet (ﷺ) told him to tell Abu Bakr (RA) to lead the people in the prayer. I said, " Abu Bakr (RA) is a soft-hearted man and if he stands for the prayer in your place, he would weep and would not be able to recite the Qur'an." The Prophet (ﷺ) said, "Tell Abu Bakr (RA) to lead the prayer." I said the same as before. He (repeated the same order and) on the third or the fourth time he said, "You are the companions of Joseph. Tell Abu Bakr (RA) to lead the prayer." So Abu Bakr (RA) led the prayer and meanwhile the Prophet (ﷺ) felt better and came out with the help of two men; as if I see him just now dragging his feet on the ground. When Abu Bakr (RA) saw him, he tried to retreat but the Prophet (ﷺ) beckoned him to carry on. Abu Bakr (RA) retreated a bit and the Prophet (ﷺ) sat on his (left) side. Abu Bakr (RA) was repeating the Takbir (Allahu Akbar) of Allah's Apostle (ﷺ) for the people to hear.