Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: (The superiority of) comprehending knowledge)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
73.
حضرت مجاہد کہتے ہیں: میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ساتھ مدینے تک رہا لیکن میں نے انہیں ایک حدیث کے سوا اور کوئی چیز رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہوئے نہیں سنا۔ انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ کی خدمت میں کھجور کا گودا لایا گیا۔ آپ نے فرمایا: ’’درختوں میں ایک ایسا درخت ہے جس کی مثال مسلمان کی طرح ہے۔‘‘ میں نے ارادہ کیا کہ بتاؤں وہ کھجور ہے لیکن میں لوگوں میں سب سے چھوٹا تھا، اس لیے خاموش رہا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’وہ کھجور کا درخت ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پہلے تفقہ فی الدین کی فضیلت بیان کی تھی اور اس باب میں فہم مطلق کی فضیلت بیان کرنا مقصود ہے۔ اگرچہ اس حدیث میں کسی فضیلت کا ذکر نہیں ہے لیکن حدیث نمبر131 جو مفصل ہے، اس میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے والد گرامی سے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد کو میں سمجھ گیا تھا لیکن بڑوں کو خاموش دیکھ کرمیں بھی خاموش رہا۔ مبادا آپ کو ناگوار گزرے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اگر تم اس وقت اس کا ظہار کر دیتے تو مجھے اس قدر خوشی ہوتی کہ سرخ اونٹ بھی اس خوشی کے مقابلے میں کم تر ہوتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم میں فہم بھی ایک فضیلت کی چیز ہے۔ 2۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ذہانت و فطانت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خوشئہ کھجور سے نکلنے والا مغزلایا گیا اور آپ نے اسے تناول فرمانا شروع کیا۔ اس کے بعد آپ نے حاضرین کے سامنے سوال کیا۔ اس مجموعی صورت حال سے انھوں نے اندازہ لگایا کہ هو نہ ہو یہ کھجور کا درخت ہے لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر اصحاب کی موجودگی میں لب کشائی کو نامناسب خیال کرتے ہوئے آپ خاموش رہے۔ (رضی اللہ عنہ) 3۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ طالب علم کو مطالعہ کرنے کی عادت پیدا کرنی چاہیے اور قوت مطالعہ بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کا طریقہ بھی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مناسبات کو مدنظر رکھا جائے اور بوقت مطالعہ اوپرنیچے سب طرف نظر رکھی جائے اور غورو فکرکیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نخلہ (کھجور کے درخت) کے متعلق سوال کیا تو اس وقت آپ اس کا گودا کھا رہے تھے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مناسبات کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال کی تہہ تک پہنچ گئے کہ وہ تو کھجور کا درخت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
72
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
72
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
72
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
72
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
پہلا باب دینی معاملات میں تفقہ سے متعلق تھا، اب مطلق فہم وبصیرت کا بیان ہے۔
حضرت مجاہد کہتے ہیں: میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ساتھ مدینے تک رہا لیکن میں نے انہیں ایک حدیث کے سوا اور کوئی چیز رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہوئے نہیں سنا۔ انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ کی خدمت میں کھجور کا گودا لایا گیا۔ آپ نے فرمایا: ’’درختوں میں ایک ایسا درخت ہے جس کی مثال مسلمان کی طرح ہے۔‘‘ میں نے ارادہ کیا کہ بتاؤں وہ کھجور ہے لیکن میں لوگوں میں سب سے چھوٹا تھا، اس لیے خاموش رہا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’وہ کھجور کا درخت ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پہلے تفقہ فی الدین کی فضیلت بیان کی تھی اور اس باب میں فہم مطلق کی فضیلت بیان کرنا مقصود ہے۔ اگرچہ اس حدیث میں کسی فضیلت کا ذکر نہیں ہے لیکن حدیث نمبر131 جو مفصل ہے، اس میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے والد گرامی سے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد کو میں سمجھ گیا تھا لیکن بڑوں کو خاموش دیکھ کرمیں بھی خاموش رہا۔ مبادا آپ کو ناگوار گزرے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اگر تم اس وقت اس کا ظہار کر دیتے تو مجھے اس قدر خوشی ہوتی کہ سرخ اونٹ بھی اس خوشی کے مقابلے میں کم تر ہوتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم میں فہم بھی ایک فضیلت کی چیز ہے۔ 2۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ذہانت و فطانت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خوشئہ کھجور سے نکلنے والا مغزلایا گیا اور آپ نے اسے تناول فرمانا شروع کیا۔ اس کے بعد آپ نے حاضرین کے سامنے سوال کیا۔ اس مجموعی صورت حال سے انھوں نے اندازہ لگایا کہ هو نہ ہو یہ کھجور کا درخت ہے لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر اصحاب کی موجودگی میں لب کشائی کو نامناسب خیال کرتے ہوئے آپ خاموش رہے۔ (رضی اللہ عنہ) 3۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ طالب علم کو مطالعہ کرنے کی عادت پیدا کرنی چاہیے اور قوت مطالعہ بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کا طریقہ بھی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مناسبات کو مدنظر رکھا جائے اور بوقت مطالعہ اوپرنیچے سب طرف نظر رکھی جائے اور غورو فکرکیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نخلہ (کھجور کے درخت) کے متعلق سوال کیا تو اس وقت آپ اس کا گودا کھا رہے تھے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مناسبات کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال کی تہہ تک پہنچ گئے کہ وہ تو کھجور کا درخت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی (بن مدینی) نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے ابن ابی نجیح نے مجاہد کے واسطے سے نقل کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر ؓ کے ساتھ مدینے تک رہا، میں نے (اس) ایک حدیث کے سوا ان سے رسول اللہ ﷺ کی کوئی اور حدیث نہیں سنی، وہ کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ ﷺ کے پاس کھجور کا ایک گابھا لایا گیا۔ (اسے دیکھ کر) آپ ﷺ نے فرمایا کہ درختوں میں ایک درخت ایسا ہے اس کی مثال مسلمان کی طرح ہے۔ (ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ یہ سن کر) میں نے ارادہ کیا کہ عرض کروں کہ وہ (درخت) کھجور کا ہے مگر چونکہ میں سب میں چھوٹا تھا اس لیے خاموش رہا۔ (پھر) رسول اللہ ﷺ نے خود ہی فرمایا کہ وہ کھجور ہے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث(71) کے آخر میں جو فرمایا، اس کا مطلب دوسری حدیث کی وضاحت کے مطابق یہ ہے کہ امت کس قدر بھی گمراہ ہوجائے مگر اس میں ایک جماعت حق پر قائم رہے گی، اس کی لوگ کتنی بھی مخالفت کریں مگر اس جماعت حقہ کو اس مخالفت کی کچھ پر وا نہ ہوگی، اس جماعت سے جماعت اہل حدیث مراد ہے۔ جس نے تقلید جامد سے ہٹ کر صرف کتاب وسنت کو اپنا مدار عمل قرار دیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): We were with the Prophet (ﷺ) and a spadix of date-palm tree was brought to him. On that he said, "Amongst the trees, there is a tree which resembles a Muslim." I wanted to say that it was the date-palm tree but as I was the youngest of all (of them) I kept quiet. And then the Prophet (ﷺ) said, "It is the date-palm tree."