تشریح:
1۔ رشک یہ ہے کہ کسی میں اچھی صفت یا نعمت دیکھ کر انسان خوش ہو اور اپنے لیے اس کی تمنا کرے۔ اگر مقصود یہ ہو کہ اس سے وہ نعمت چھن جائے اور مجھے مل جائے تو اسے حسد کہتے ہیں اور یہ قابل مذمت ہے نیز حسد ہمیشہ کسی خوبی اور کمال ہی پر ہوا کرتا ہے خواہ کمال علمی ہو یا عملی۔ حدیث کے پہلے جملے کا تعلق کمال عملی سے ہے اور دوسرے کا کمال علمی سے۔ اسی طرح فضائل بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ظاہری اور باطنی، ظاہری فضائل میں اصل اصول مالداری ہے اور باطنی فضائل میں اصل اصول علم ہے۔
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں لفظ غبطہ بڑھا دیا جس کے معنی رشک کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث میں لفظ حسد اپنے معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ وہ غبطہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی اس حدیث میں یہ اضافہ موجود ہے کہ جب اس کا پڑوسی اس کا قرآن پڑھنا پڑھانا دیکھتا ہے تو کہتا ہے۔ کاش! مجھے بھی قرآن کی یہ دولت ملے تو میں بھی اسی طرح کروں، جس طرح وہ کرتا ہے۔ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5026) اور جب اس کی جود وسخا کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے بھی اس جیسی مال کی فراوانی ملے تو میں بھی اسی طرح خرچ کروں جس طرح وہ خرچ کرتا ہے۔ (صحیح البخاري، التمني، حدیث: 7232) اس حدیث میں جس طرح پڑوسی نے اپنی تمنا کا اظہار کیا ہے یہ صرف غبطے میں ہو سکتا ہے حسد میں یہ انداز نہیں ہوتا۔ (فتح الباري: 220/1)
3۔ حدیث میں حسد کو اپنے حقیقی معنی میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں مستثنیٰ منقطع ہوگا یعنی اگر کوئی چیز قابل حسد ہو سکتی تو وہ صرف دو تھیں۔ ایک کمال علمی اور دوسرا کمال عملی جو جودوسخا سے متعلق ہے جب یہ بھی جائز نہیں تو باقی چیزوں میں تو یقینی طور پر حرام ہے۔ (فتح الباري: 220/1)
4۔ حسد حرام اور ناجائز ہے لیکن علمائے امت نے ایک مقام پر حسد جائز رکھا ہے وہ یہ کہ اگر کسی کافر یا فاسق کے پاس علم اور مال کی دولت ہو اور وہ اسے اللہ کی نافرمانی میں استعمال کرتا ہو اور لوگوں کو ان کے ذریعے سے گمراہ کرتا ہو تو ایسے حالات میں اس سے اس نعمت کے چھن جانے کی تمنا جائز ہی نہیں بلکہ باعث ثواب بھی ہے۔ (فتح الباري: 219/1)
5۔ مال دار کا عموماً یہ حال ہوتا ہے کہ مال اس کے دل پر حاوی ہو جاتا ہے بلکہ بعض اوقات اس کی کمزوری بن جاتا ہے، لیکن اگر وہ اسے پورے طور پر خرچ کرتا ہے تو دنیا و آخرت میں اس کی عزت کا باعث ہے۔ اس میں(فِي الْحَقِّ) کی قید اس لیے لگائی ہے تاکہ اسراف و تبذیر کا گمان نہ ہو۔ (فتح الباري:219/1)