تشریح:
1۔ہم لوگوں نے حضرت نوح علیہ السلام یا ان کی امت کونہیں دیکھا مگرقیامت کے دن یقین کےساتھ گواہی دیں گے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی اُمت کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادیا تھا۔ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے سے اس حقیقت کا پتا چلا ہے، جو بات تواتر کے ساتھ سنی جائے وہ دیکھی ہوئی چیز کی طرح ہوتی ہے اور اس کے متعلق گواہی بھی دی جا سکتی ہے۔ مثلاً: ایک شخص کا بیٹا ہے اور سب لوگوں کو اس کا علم ہوتو وہ اس کے متعلق گواہی دے سکتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں کا بیٹا ہے، حالانکہ کسی نے اسے پیدا ہوتے ہوئے اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا۔
2۔اس آیت کریمہ سے بعض حضرات نے حجیت اجماع کو ثابت کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو اُمت وَسَط، یعنی عدل پسند فرمایا ہے اور یہ ممکن نہیں کہ ساری اُمت کا اجماع کسی باطل یا ناحق چیز پر ہو جائے، چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ آیت کریمہ میں اس امت مرحومہ کا وصف "وَسَط" بیان ہوا ہے۔ اس سے مراد ان کا عدل پسند ہونا ہے، اس لیے اہل جہالت اور اہل بدعت قطعاً اس وصف کے لائق نہیں ہیں تو معلوم ہوا کہ اس سے مراد حقیقی اہل سنت والجماعت کے لوگ (اہل حدیث) ہیں اور وہ حقیقی علم شرعی کے حاملین ہیں۔
3۔احادیث میں جماعت سے چمٹے رہنے کا حکم ہے۔ شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ اس عنوان میں جماعت کو مضبوطی سے پکڑے رکھنے کی ترغیب ہے۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري: 387/13)