تشریح:
1۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل وبصیرت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غرض سمجھ گئیں کہ روئی کےٹکڑے سے وضو تو نہیں ہوتا، لہذا اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ اسے اپنے بدن پر پھیر کر اس سے پاکی حاصل کرلے، چنانچہ ایک حدیث میں اس کی ان الفاظ میں وضاحت بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کی وجہ سے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اسے بتایا کہ مشک (خوشبو) لگا ہوا روئی کا ٹکڑا لے کر جہاں جہاں خون کے نشانات ہیں وہاں لگا دو تاکہ ناگواری کے اثرات ختم ہو جائیں۔ (صحیح البخاري، الحیض، حدیث: 314)
2۔سوال کرنے والی عورت کو اس بات کا علم نہ تھا کہ خون کے نشانات پر خوشبودار روئی کا ٹکڑا لگانا وضو کہلاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ خون اور ناگواری کا ذکر ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیاداری کی وجہ سے صراحت نہ فرمائی لیکن سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کو سمجھ لیا اور اسے بتایا جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خاموشی سے تائید کر دی۔ (فتح الباري: 405/13) اس قسم کی رہنمائی کو دلالت عقلی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ واللہ أعلم۔