تشریح:
جب لوگ بار بار اصرار کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے چھوڑ دو۔ میں جس حالت میں ہوں اس حالت سے بہتر ہوں جس کی تم مجھے دعوت دیتے ہو۔‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اختلاف اور جھگڑا کرنا اچھا نہیں۔‘‘ یہ جمعرات کے دن کا واقعہ ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4431) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پیر کے دن ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھ دن اس واقعے کے بعد زندہ رہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جزیرہ عرب سے مشرکین کونکال دینے کا حکم دیا اور باہر سے آنے والے مہمانوں کی خاطر و مدارات کرنے کا حکم بھی جاری فرمایا۔ (صحیح البخاري، الجزیة والموادعة، حدیث: 3168) اگر تحریر کا معاملہ اتنا ہی اہم اور ضروری ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لکھوا سکتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس موضوع پر کوئی گفتگو نہیں فرمائی۔ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جھگڑے شور و غل اور باہمی اختلاف کو دیکھ کر اپنا ارادہ بدل دیا جو عین منشائے الٰہی کے مطابق ہوا اس کے بعد امر خلافت کے متعلق جو کچھ ہوا وہ بھی عین اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے مطابق ہوا۔ آثار و قرآئن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلافت کے متعلق کچھ تحریر کرانا تھا۔ واللہ أعلم۔ حدیث اور عنوان میں مطابقت اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپس میں اختلاف اور جھگڑے کو پسند نہیں فرمایا۔