تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ متصل روایت میں ذات باری تعالیٰ کے لیے شخص کا اطلاق نہیں ہوا بلکہ انھوں نے عبید اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے یہ لفظ نقل کیا ہے۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بیان کردہ اس روایت میں تین مرتبہ یہ لفظ بیان کیا ہے۔ (صحیح مسلم، اللعان، حدیث: 3764(1499) امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت بیان کرنے کے بعد راوی حدیث عبیداللہ القواریری کے حوالےسے لکھا ہے کہ انھوں نے کہا: فرقہ جہمیہ پر اس حدیث سے زیادہ شدید اور سخت ترین حدیث اور کوئی نہیں کیونکہ اس میں لفظ شخص کا اطلاق ذات باری تعالیٰ پر کیا گیا ہے جبکہ یہ فرقہ اسے تسلیم نہیں کرتا۔ (مسند أحمد:248/4)
2۔ہمیں شارحین سے شکوہ ہے کہ انھوں نے کتاب التوحید کی تشریح کرتے ہوئے صحیح بخاری کا حق ادا نہیں کیا ہے چنانچہ ابن بطال مالکی اشاعرہ کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس لفظ کا اطلاق ذات باری تعالیٰ کے لیے صحیح نہیں کیونکہ حدیث میں اس کی کوئی صراحت نہیں ہے۔ (شرح صحیح البخاری لابن بطال: 442/10) ابن بطال کا یہ صرف دعوی ہے کیونکہ اس اجماع کی امت کے مقتدمین اور سابقہ اہل علم میں سے کسی نے بھی صراحت نہیں کی البتہ جو حضرات اہل کلام سے متاثر ہیں انھوں نے ضرور اس طرح کی باتیں کی ہیں چنانچہ ایک دوسرے شارح صحیح بخاری علامہ خطابی نے لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ شخص کا اطلاق صحیح نہیں کیونکہ شخص وہ ہے جو مرکب جسم رکھتا ہو لہٰذا اس طرح کی صفت اللہ کے شایان شان نہیں ہے۔ جن احادیث میں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے وارد ہے وہ راویوں کی تصحیف کا نتیجہ ہے۔ (اعلام الحدیث:2344/4)
3۔واضح رہے کہ جب علمی قواعد کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ کوئی بات ثابت ہو جائے تو اسے قبول کرنا ضروری ہے خواہ اس کا تعلق عقائد سے ہو یا اعمال سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ لفظ ذات باری تعالیٰ کے لیے استعمال ہوا ہے جیسا کہ اس سے پہلے وضاحت ہو چکی ہے۔ ایسے حالات میں اجماع کے خود ساختہ دعوے کی آڑ میں اس کا انکار کرنا یا اسے راویوں کی تصحیف قرار دینا مومن کی شان کے خلاف ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جزم ووثوق کے ساتھ اس لفظ کا اطلاق ذات باری تعالیٰ پر برقراررکھا بلکہ احتمال کے طور پر اسے بیان کیا ہے جبکہ لفظ شے کے متعلق صراحت کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ پر اس کا اطلاق صحیح ہے جیسا کہ آئندہ باب میں آئے گا۔ ( فتح الباري:492/13) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے اس موقف سے ہمیں اتفاق نہیں کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے انداز اور اسلوب کے مطابق لکھا ہے۔ اس کی صحیح احادیث سے تائید ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔