قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ {وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ} [هود: 7]، {وَهُوَ رَبُّ العَرْشِ العَظِيمِ} [التوبة: 129])

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ أَبُو العَالِيَةِ: {اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ} [البقرة: 29]: «ارْتَفَعَ»، {فَسَوَّاهُنَّ} [البقرة: 29]: «خَلَقَهُنَّ» وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {اسْتَوَى} [البقرة: 29]: «عَلاَ» {عَلَى العَرْشِ} [الأعراف: 54] وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {المَجِيدُ} [ق: 1]: «الكَرِيمُ»، وَ {الوَدُودُ} [البروج: 14]: «الحَبِيبُ»، يُقَالُ: «حَمِيدٌ مَجِيدٌ، كَأَنَّهُ فَعِيلٌ مِنْ مَاجِدٍ، مَحْمُودٌ مِنْ حَمِدَ»

7423. حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنِي هِلَالٌ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَصَامَ رَمَضَانَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ هَاجَرَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ جَلَسَ فِي أَرْضِهِ الَّتِي وُلِدَ فِيهَا قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا نُنَبِّئُ النَّاسَ بِذَلِكَ قَالَ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِهِ كُلُّ دَرَجَتَيْنِ مَا بَيْنَهُمَا كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَسَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الْجَنَّةِ وَأَعْلَى الْجَنَّةِ وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

ابوالعالیہ نے بیان کیا کہ «استوى إلى السماء‏» کا مفہوم یہ ہے کہ وہ آسمان کی طرف بلند ہوا۔ «فسواهن‏» یعنی پھر انہیں پیدا کیا۔ مجاہد نے کہا کہ «استوى‏» بمعنی «على العرش‏.‏» ہے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ «مجيد» بمعنی «كريم» ۔ «الودود» بمعنی«الحبيب‏.‏» بولتے ہیں۔ «حميد» ، «مجيد» ۔ گویا یہ فعیل کے وزن پر ماجد سے ہے اور «محمود» ، «حميد‏.‏» سے مشتق ہے۔

7423.

سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ کے ذمے ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے خواہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرے یا اسی زمین میں مقیم رہے جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم لوگوں کو اس سے مطلع نہ کریں ؟ آپ ﷺ نےفرمایا: ”جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیے ہیں۔ ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے، اس لیے تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو جنت فردوس کا سوال کیا کرو کیونکہ یہ جنت کا اعلیٰ اور بلند ترین درجہ ہے اور اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔“