صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
1. باب : آنحضرت ﷺ کا اپنی امت کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی طرف دعوت دینا
صحيح البخاري
98. كتاب التوحيد والرد علی الجهمية وغيرهم
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي دُعَاءِ النَّبِيِّ ﷺ أُمَّتَهُ إِلَى تَوْحِيدِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى
Sahi-Bukhari
98. Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
1. Chapter: The Prophet (saws) inviting his followers to Tauhid of Allah
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب : آنحضرت ﷺ کا اپنی امت کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی طرف دعوت دینا
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: The Prophet (saws) inviting his followers to Tauhid of Allah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7439.
سیدنا ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل ؓ کو اہل یمن کی طرف بھیجا تو انہیں فرمایا: تم اہل کتاب میں سے ایک قوم کے پاس جا رہے ہو، اس لیے سب سے پہلے انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اللہ کو ایک مانیں یعنی توحید کا اقرار کرلیں۔ جب وہ اس عقیدہ توحید کو سمجھ جائیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ نماز پڑھنے لگیں تو انہیں بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال میں ان پر زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے کے امیروں سے وصول کی جائے گی اور ان کے غریب لوگوں پر خرچ کی جائے گی۔پھر جب وہ اس کا بھی اقرار کرلیں تو ان سے زکاۃ وصول کرنا لیکن زکاۃ وصول کرتے وقت لوگوں کے عمدہ مال لینے سے اجتناب کرنا۔
تشریح:
1۔اہل کلام کے نزدیک انسان پر پہلا واجب یہ ہے کہ وہ وجود باری تعالیٰ کے متعلق غور وفکرکرے جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے وہ اس سلسلے میں شکوک وشبہات کا شکار ہو، پھر وہ اس کے متعلق غوروخوض کرے جبکہ ہمارے اسلاف کے نزدیک انسان پر پہلا واجب عقیدہ توحید کو مضبوط کرنا ہےجیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ حدیث سے واضح ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اوربلاشبہ یقیناً ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیجا کہ (لوگو!) تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت(کی عبادت) سے بچو۔‘‘(النحل: 136) حضرت حارث بن حارث العائذی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں زمانہ جاہلیت میں مکہ مکرمہ آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ اکھٹے ہیں۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا: یہ لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہوئے ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا: یہ لوگ ایک صابی کے گرد جمع ہیں۔ جب میں نے قریب جا کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں توحید اورایمان کی دعوت دے رہے تھے۔ (التاریخ الکبیر: 262/13) ایک روایت میں ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن بھیجا تو انھیں حکم دیا کہ انھیں شہادتیں کے اقرار اور اس پر ایمان کی دعوت دیں۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1395)لاالٰه الا اللہ کی گواہی کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔ اس کی صراحت بھی ایک روایت میں ہے۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1458) اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کا مطلب یہ ہے کہ وہ عبادت کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاطریقہ اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ کےسوا دوسروں کی عبادت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ عبادت کے علاوہ دوسرے تمام طریقوں سے دست بردار ہوجائیں۔ 2۔واضح رہے کہ ان شہادتین کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ ایک کے بغیر دوسری کا اعتبار نہیں کیا جائےگا۔ جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو نہیں مانتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اورہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتا یا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے دوسروں کوشریک کرتا ہے توایسا شخص بھی ایمان سے خارج ہے، اس لیے ایک بندہ مسلم کے لیے ان دونوں شہادتوں کا اقرار اور ان کے مطابق ایمان انتہائی ضروری ہے۔ (شرح کتاب التوحید للشیخ عبداللہ بن محمد الغنیمان: 39/1) اللہ تعالیٰ کی معرفت دین اسلام کا ماحاصل ہے اور عقیدہ توحید اس معرفت کی اساس ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معرفت کے اصول وضوابط خوب وضاحت سے بیان فرما دیے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق کوئی اشتباہ یا شک باقی نہیں چھوڑا۔ اس بنا پر عقائد کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع ہی کافی ہے۔ کسی منطقی کی رائے، فلسفی کی عقل یا کسی تاویل کرنے والے کی تاویل کے ہم محتاج نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہی توحید بیان کرنا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ اس فرض کو پوری ذمہ داری سے ادا کرکے اپنے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس پر گواہ بنایا۔ اب اس سے انحراف کرنے والوں کے لیے کوئی عذر نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے منطق کی قیل وقال یا فلسفے کی موشگافیوں کا سہارا لیں۔ 3۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے دسویں سال حجۃ الوداع سے پہلے اپنے ہمسائے ملک یمن میں دعوت توحید اوراشاعت اسلام کے لیے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب کیا کہ وہ دونوں وہاں کے رہنے والے اہل کتاب کو توحید کی دعوت دیں اور انھیں اللہ تعالیٰ کی پہچان کرائیں۔ جب وہ اس سے آگاہ ہوجائیں تو پھر دیگر شعائر اسلام کی انھیں تعلیم دیں۔ 4۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ انسان پر پہلا واجب اپنے رب کی معرفت ہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اس امر کو بیان کیا ہے اور اس عقیدہ توحید کی دعوت دی ہے، اب اس کی وضاحت کے بعد لوگوں کے خود ساختہ اصول وضوابط کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع ہی کو حرز جاں بنانا چاہیے۔ اس کے علاوہ دیگر اہل کلام کے اقوال کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ (شرح کتاب التوحید الغنیمان: 42/1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولیں دعوت،دعوتِ توحید ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے بھی انبیاء تشریف لائے انھوں نے سب سے پہلے دعوتِ توحید پیش کی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اور آپ سے پہلے ہم نے جو بھی رسول بھیجا،اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ بے شک حقیقت یہ ہے میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں،لہذا تم صرف میری عبادت کرو۔"(الانبیاء:21/25)واضح رہے کہ عنوان میں اُمت سے مراد امت دعوت ہے جنھیں دعوت توحید پیش کی گئی۔
سیدنا ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل ؓ کو اہل یمن کی طرف بھیجا تو انہیں فرمایا: تم اہل کتاب میں سے ایک قوم کے پاس جا رہے ہو، اس لیے سب سے پہلے انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اللہ کو ایک مانیں یعنی توحید کا اقرار کرلیں۔ جب وہ اس عقیدہ توحید کو سمجھ جائیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ نماز پڑھنے لگیں تو انہیں بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال میں ان پر زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے کے امیروں سے وصول کی جائے گی اور ان کے غریب لوگوں پر خرچ کی جائے گی۔پھر جب وہ اس کا بھی اقرار کرلیں تو ان سے زکاۃ وصول کرنا لیکن زکاۃ وصول کرتے وقت لوگوں کے عمدہ مال لینے سے اجتناب کرنا۔
حدیث حاشیہ:
1۔اہل کلام کے نزدیک انسان پر پہلا واجب یہ ہے کہ وہ وجود باری تعالیٰ کے متعلق غور وفکرکرے جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے وہ اس سلسلے میں شکوک وشبہات کا شکار ہو، پھر وہ اس کے متعلق غوروخوض کرے جبکہ ہمارے اسلاف کے نزدیک انسان پر پہلا واجب عقیدہ توحید کو مضبوط کرنا ہےجیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ حدیث سے واضح ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اوربلاشبہ یقیناً ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیجا کہ (لوگو!) تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت(کی عبادت) سے بچو۔‘‘(النحل: 136) حضرت حارث بن حارث العائذی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں زمانہ جاہلیت میں مکہ مکرمہ آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ اکھٹے ہیں۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا: یہ لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہوئے ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا: یہ لوگ ایک صابی کے گرد جمع ہیں۔ جب میں نے قریب جا کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں توحید اورایمان کی دعوت دے رہے تھے۔ (التاریخ الکبیر: 262/13) ایک روایت میں ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن بھیجا تو انھیں حکم دیا کہ انھیں شہادتیں کے اقرار اور اس پر ایمان کی دعوت دیں۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1395)لاالٰه الا اللہ کی گواہی کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔ اس کی صراحت بھی ایک روایت میں ہے۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1458) اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کا مطلب یہ ہے کہ وہ عبادت کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاطریقہ اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ کےسوا دوسروں کی عبادت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ عبادت کے علاوہ دوسرے تمام طریقوں سے دست بردار ہوجائیں۔ 2۔واضح رہے کہ ان شہادتین کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ ایک کے بغیر دوسری کا اعتبار نہیں کیا جائےگا۔ جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو نہیں مانتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اورہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتا یا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے دوسروں کوشریک کرتا ہے توایسا شخص بھی ایمان سے خارج ہے، اس لیے ایک بندہ مسلم کے لیے ان دونوں شہادتوں کا اقرار اور ان کے مطابق ایمان انتہائی ضروری ہے۔ (شرح کتاب التوحید للشیخ عبداللہ بن محمد الغنیمان: 39/1) اللہ تعالیٰ کی معرفت دین اسلام کا ماحاصل ہے اور عقیدہ توحید اس معرفت کی اساس ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معرفت کے اصول وضوابط خوب وضاحت سے بیان فرما دیے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق کوئی اشتباہ یا شک باقی نہیں چھوڑا۔ اس بنا پر عقائد کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع ہی کافی ہے۔ کسی منطقی کی رائے، فلسفی کی عقل یا کسی تاویل کرنے والے کی تاویل کے ہم محتاج نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہی توحید بیان کرنا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ اس فرض کو پوری ذمہ داری سے ادا کرکے اپنے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس پر گواہ بنایا۔ اب اس سے انحراف کرنے والوں کے لیے کوئی عذر نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے منطق کی قیل وقال یا فلسفے کی موشگافیوں کا سہارا لیں۔ 3۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے دسویں سال حجۃ الوداع سے پہلے اپنے ہمسائے ملک یمن میں دعوت توحید اوراشاعت اسلام کے لیے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب کیا کہ وہ دونوں وہاں کے رہنے والے اہل کتاب کو توحید کی دعوت دیں اور انھیں اللہ تعالیٰ کی پہچان کرائیں۔ جب وہ اس سے آگاہ ہوجائیں تو پھر دیگر شعائر اسلام کی انھیں تعلیم دیں۔ 4۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ انسان پر پہلا واجب اپنے رب کی معرفت ہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اس امر کو بیان کیا ہے اور اس عقیدہ توحید کی دعوت دی ہے، اب اس کی وضاحت کے بعد لوگوں کے خود ساختہ اصول وضوابط کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع ہی کو حرز جاں بنانا چاہیے۔ اس کے علاوہ دیگر اہل کلام کے اقوال کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ (شرح کتاب التوحید الغنیمان: 42/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور مجھ سے عبد اللہ بن محمد بن ابی الاسود نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے فضل بن العلاء نے بیان کیا‘ ان سے اسماعیل بن امیہ نے بیان کیا‘ ان سے یحییٰ بن عبد اللہ بن محمد بن صیفی نے بیان کیا‘ انہوں نے ابن عباس ؓ کے غلام ابو معبد سے سنا‘ انہو ں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ جب رسول کریم ﷺ نے معاذ بن جبل ؓ کو یمن بھیجا تو ان سے فرمایا کہ تم اہل کتاب میں سے ایک قوم کے پاس جا رہے ہو۔ اس لیے سب سے پہلے انہیں اس کی دعوت دینا کہ وہ اللہ کو ایک مانیں (اور میری رسالت کو مانیں) جب وہ اسے سمجھ لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ نے یک دن اور رات میں ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ نماز پڑھنے لگیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے‘ جو ان کے امیروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں کو لوٹا دی جائے گی۔ جب وہ اس کا بھی اقرار کر لیں تو ان سے زکوٰۃ لینا اور لوگوں کے عمدہ مال لینے سے پرہیز کرنا۔
حدیث حاشیہ:
توحیدکی دو قسمیں ہیں۔ توحید ربوبیت‘ توحید الوہیت۔ اللہ کو رب ماننا یہ قسم تو اکثر کفار ومشرکین کو بھی تسلیم رہی ہے۔ دوسری توحید کے معنی یہ کہ عبادت بندگی کے جتنے کام ہیں ان کو خالص ایک اللہ کے لیے بجا لانا۔ مشرکین کو اس سے انکار رہا اور آج اکثر نام نہاد مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے کہ وہ عبادت وبندگی اللہ کے سوا بزرگوں اور اولیاء کرام کی بھی بجا لاتے ہیں۔ اکثر مسلمان نما مشرکین قبروں کو سجدہ کرتے ہیں۔ بزرگان اسلام کے نام کی نذورنیاز کرتے ہیں۔ اس حدیث میں بہ سلسلہ تبلیغ پہلے توحید الوہیت کی دعوت دینا ضروری قرار دیا ہے پھر دیگر ارکان اسلام کی تبلیغ کرنا۔ کتاب التوحید سے حدیث کا یہی تعلق ہے کہ بہر حال توحید الوہیت مقدم ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA) : When the Prophet (ﷺ) sent Muadh to Yemen, he said to him, "You are going to a nation from the people of the Scripture, so let the first thing to which you will invite them, be the Tauhid of Allah. If they learn that, tell them that Allah has enjoined on them, five prayers to be offered in one day and one night. And if they pray, tell them that Allah has enjoined on them Zakat of their properties and it is to be taken from the rich among them and given to the poor. And if they agree to that, then take from them Zakat but avoid the best property of the people."