قسم الحديث (القائل): قدسی ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} [القيامة: 23])

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

7439. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ عَنْ زَيْدٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ هَلْ تُضَارُونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ إِذَا كَانَتْ صَحْوًا قُلْنَا لَا قَالَ فَإِنَّكُمْ لَا تُضَارُونَ فِي رُؤْيَةِ رَبِّكُمْ يَوْمَئِذٍ إِلَّا كَمَا تُضَارُونَ فِي رُؤْيَتِهِمَا ثُمَّ قَالَ يُنَادِي مُنَادٍ لِيَذْهَبْ كُلُّ قَوْمٍ إِلَى مَا كَانُوا يَعْبُدُونَ فَيَذْهَبُ أَصْحَابُ الصَّلِيبِ مَعَ صَلِيبِهِمْ وَأَصْحَابُ الْأَوْثَانِ مَعَ أَوْثَانِهِمْ وَأَصْحَابُ كُلِّ آلِهَةٍ مَعَ آلِهَتِهِمْ حَتَّى يَبْقَى مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ مِنْ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ وَغُبَّرَاتٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ ثُمَّ يُؤْتَى بِجَهَنَّمَ تُعْرَضُ كَأَنَّهَا سَرَابٌ فَيُقَالُ لِلْيَهُودِ مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ قَالُوا كُنَّا نَعْبُدُ عُزَيْرَ ابْنَ اللَّهِ فَيُقَالُ كَذَبْتُمْ لَمْ يَكُنْ لِلَّهِ صَاحِبَةٌ وَلَا وَلَدٌ فَمَا تُرِيدُونَ قَالُوا نُرِيدُ أَنْ تَسْقِيَنَا فَيُقَالُ اشْرَبُوا فَيَتَسَاقَطُونَ فِي جَهَنَّمَ ثُمَّ يُقَالُ لِلنَّصَارَى مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ فَيَقُولُونَ كُنَّا نَعْبُدُ الْمَسِيحَ ابْنَ اللَّهِ فَيُقَالُ كَذَبْتُمْ لَمْ يَكُنْ لِلَّهِ صَاحِبَةٌ وَلَا وَلَدٌ فَمَا تُرِيدُونَ فَيَقُولُونَ نُرِيدُ أَنْ تَسْقِيَنَا فَيُقَالُ اشْرَبُوا فَيَتَسَاقَطُونَ فِي جَهَنَّمَ حَتَّى يَبْقَى مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ مِنْ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ فَيُقَالُ لَهُمْ مَا يَحْبِسُكُمْ وَقَدْ ذَهَبَ النَّاسُ فَيَقُولُونَ فَارَقْنَاهُمْ وَنَحْنُ أَحْوَجُ مِنَّا إِلَيْهِ الْيَوْمَ وَإِنَّا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِيَلْحَقْ كُلُّ قَوْمٍ بِمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ وَإِنَّمَا نَنْتَظِرُ رَبَّنَا قَالَ فَيَأْتِيهِمْ الْجَبَّارُ فِي صُورَةٍ غَيْرِ صُورَتِهِ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ فَيَقُولُ أَنَا رَبُّكُمْ فَيَقُولُونَ أَنْتَ رَبُّنَا فَلَا يُكَلِّمُهُ إِلَّا الْأَنْبِيَاءُ فَيَقُولُ هَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ آيَةٌ تَعْرِفُونَهُ فَيَقُولُونَ السَّاقُ فَيَكْشِفُ عَنْ سَاقِهِ فَيَسْجُدُ لَهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَيَبْقَى مَنْ كَانَ يَسْجُدُ لِلَّهِ رِيَاءً وَسُمْعَةً فَيَذْهَبُ كَيْمَا يَسْجُدَ فَيَعُودُ ظَهْرُهُ طَبَقًا وَاحِدًا ثُمَّ يُؤْتَى بِالْجَسْرِ فَيُجْعَلُ بَيْنَ ظَهْرَيْ جَهَنَّمَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْجَسْرُ قَالَ مَدْحَضَةٌ مَزِلَّةٌ عَلَيْهِ خَطَاطِيفُ وَكَلَالِيبُ وَحَسَكَةٌ مُفَلْطَحَةٌ لَهَا شَوْكَةٌ عُقَيْفَاءُ تَكُونُ بِنَجْدٍ يُقَالُ لَهَا السَّعْدَانُ الْمُؤْمِنُ عَلَيْهَا كَالطَّرْفِ وَكَالْبَرْقِ وَكَالرِّيحِ وَكَأَجَاوِيدِ الْخَيْلِ وَالرِّكَابِ فَنَاجٍ مُسَلَّمٌ وَنَاجٍ مَخْدُوشٌ وَمَكْدُوسٌ فِي نَارِ جَهَنَّمَ حَتَّى يَمُرَّ آخِرُهُمْ يُسْحَبُ سَحْبًا فَمَا أَنْتُمْ بِأَشَدَّ لِي مُنَاشَدَةً فِي الْحَقِّ قَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ الْمُؤْمِنِ يَوْمَئِذٍ لِلْجَبَّارِ وَإِذَا رَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ نَجَوْا فِي إِخْوَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِخْوَانُنَا كَانُوا يُصَلُّونَ مَعَنَا وَيَصُومُونَ مَعَنَا وَيَعْمَلُونَ مَعَنَا فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى اذْهَبُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِينَارٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجُوهُ وَيُحَرِّمُ اللَّهُ صُوَرَهُمْ عَلَى النَّارِ فَيَأْتُونَهُمْ وَبَعْضُهُمْ قَدْ غَابَ فِي النَّارِ إِلَى قَدَمِهِ وَإِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ فَيُخْرِجُونَ مَنْ عَرَفُوا ثُمَّ يَعُودُونَ فَيَقُولُ اذْهَبُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِينَارٍ فَأَخْرِجُوهُ فَيُخْرِجُونَ مَنْ عَرَفُوا ثُمَّ يَعُودُونَ فَيَقُولُ اذْهَبُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجُوهُ فَيُخْرِجُونَ مَنْ عَرَفُوا قَالَ أَبُو سَعِيدٍ فَإِنْ لَمْ تُصَدِّقُونِي فَاقْرَءُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا فَيَشْفَعُ النَّبِيُّونَ وَالْمَلَائِكَةُ وَالْمُؤْمِنُونَ فَيَقُولُ الْجَبَّارُ بَقِيَتْ شَفَاعَتِي فَيَقْبِضُ قَبْضَةً مِنْ النَّارِ فَيُخْرِجُ أَقْوَامًا قَدْ امْتُحِشُوا فَيُلْقَوْنَ فِي نَهَرٍ بِأَفْوَاهِ الْجَنَّةِ يُقَالُ لَهُ مَاءُ الْحَيَاةِ فَيَنْبُتُونَ فِي حَافَتَيْهِ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ قَدْ رَأَيْتُمُوهَا إِلَى جَانِبِ الصَّخْرَةِ وَإِلَى جَانِبِ الشَّجَرَةِ فَمَا كَانَ إِلَى الشَّمْسِ مِنْهَا كَانَ أَخْضَرَ وَمَا كَانَ مِنْهَا إِلَى الظِّلِّ كَانَ أَبْيَضَ فَيَخْرُجُونَ كَأَنَّهُمْ اللُّؤْلُؤُ فَيُجْعَلُ فِي رِقَابِهِمْ الْخَوَاتِيمُ فَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ فَيَقُولُ أَهْلُ الْجَنَّةِ هَؤُلَاءِ عُتَقَاءُ الرَّحْمَنِ أَدْخَلَهُمْ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ عَمَلٍ عَمِلُوهُ وَلَا خَيْرٍ قَدَّمُوهُ فَيُقَالُ لَهُمْ لَكُمْ مَا رَأَيْتُمْ وَمِثْلَهُ مَعَهُ

مترجم:

7439.

سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”مطلع صاف ہونے کی صورت میں کیا تمہیں سورج اور چاند دیکھنے میں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے؟“ ہم نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر یقیناً تمہیں اپنے رب کے دیدار میں کوئی تکلیف پیش نہیں آئے گی جیسے تمہیں سورج اور چاند دیکھنے میں کوئی مشقت نہیں ہوتی۔“ پھر فرمایا: ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: ہر قوم اس کے ساتھ جائے جس کی وہ پوجا کیا کرتی تھی۔ تب صلیب کے پجاری اپنی صلیب کے ساتھ بتوں کے پجاری اپنے بتوں کے ساتھ اور تمام معبود ان باطلہ کی پوجا پاٹ کرنے والے معبودوں کے ساتھ چلے جائیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے نیک وبدر اور بچے کھچے اہل کتاب باقی رہ جائیں گے۔ اس کے بعد جہنم ان کے سامنے لائی جائے گی جو سراب کی طرح ہوگی۔ پھر یہود سے پچھا جائے گا: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ جواب دیں گے: ہم اللہ کے بیٹے عزیز کی پوجا کرتےتھے۔ انہیں کہا جائے گا: تم جھوٹے ہو، اللہ تعالیٰ کی بیوی ہے نہ اولاد۔ اب تم کیا جانتے ہو؟ وہ کہیں گے: ہم پانی پینا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس سے سیراب کیا جائے۔ ان سے کہا جائے۔ ان سے کہا جائے گا: جاؤ پانی پیو، تو ہو دوزخ میں گر پڑیں گے۔ پھر نصاریٰ سے پوچھا جائے گا: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ جواب دیں گے: ہم اللہ کے بیٹے مسیح کی پوجا کرتے تھے ان سے کہا جائے گا: تم جھوٹے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ اس کی اولاد ہی ہے۔ اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ جواب دیں گے: ہم پانی سے سیراب ہونا چاہتے ہیں۔ ان سے کہا جائے گا: جاؤ پیو تو وہ بھی دوزخ میں گرپڑیں گے یہاں تک کہ اللہ کی عبادت کرنے والے نیک وبد باقی رہ جائیں گے۔ ان سے کہا جائے گا: تمہیں یہاں کس چیز نے روک رکھا ہے جبکہ باقی سب لوگ اپنے اپنے معبودوں کے ساتھ جا چکے ہیں؟ وہ کہیں گے ہم دنیا میں ان سے ایسے وقت جدا ہو گئے تھے کہ ہمیں ان کی زیادہ ضرورت تھی۔ یعنی ہم دنیا میں ان کے ساتھی نہ تھے اور آخرت میں بھی ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے، بلاشبہ ہم نے ایک اعلان کرنے والے کو اعلان کرتے ہوئے سنا: ”ہر شخص اس کے ساتھ چلا جائے جس کی وہ عبادت کرتا تھا۔ (ہم تو اپنے رب کی عبادت کرتے تھے) اس لیے ہم اپنے رب کے منتطر ہیں۔“ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر اللہ جبار ان کے سامنے اس صورت کے علاوہ دوسری صورت میں آئے گا جس میں انہوں نے اسے پہلی مرتبہ ہوگا۔ وہ کہے گا میں تمہارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے: واقعی تو ہمارا رب ہے اور اس دن  انبیاء ؑ کے علاوہ اور کوئی اللہ سے گفتگو نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”کیا تمہیں اپنے رب کی کوئی نشانی معلوم ہے جس کے ذریعے سے تم اسے پہچان سکو؟ وہ کہیں گے: پیڈلی ذریعہ شناخت ہے، پھر اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھول دے گا تو ہر مومن ا س کے حضور سجدہ ریز ہو جائے گا۔ صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو محض ریا کاری اور شہر کے لیے اسے سجدہ کرتے تھے۔ وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی پشت ایک تختے کی طرح ہو جائے گی، پھر پل صراط لایا جائے گا اور اسے جہنم کی پشت پر رکھ دیا جائے گا“ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پل صراط کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ گرنے اور پھسلنے کا مقام ہے اور اس پر لوہے کے نوک دار آنکڑے اور کانٹے ہوں گے۔ وہ لوہے کے کنڈے سعدان نامی جھاڑی کے کانٹوں کی طرح ہوں گے جو نجد میں پائی جاتی ہے اس پر اہل ایمان پلک جپکنے میں بجلی کی مانند ہوا کی مانند تیز رفتار گھوڑوں اور تیز اونٹوں کی طرح گزر جائیں گے۔ ان میں سے کچھ صحیح سالم نجات پانے والے ہوں گے جبکہ کچھ زخمی ہوکر بالآخر اسے عبور کر جائیں گے اور کچھ جھلس کر آگ میں گرنے والے ہوں گے حتیٰ کہ آخری شخص خود کو گھسیٹ کر اسے پار کرے گا۔ تم لوگ آج کے دن اپنا حق لینے کے لیے جتنا تقاضا اور مطالبہ مجھ سے کرتےہو اس سے کہیں زیادہ اس وقت مسلمان جبار (اللہ تعالیٰ) سے تقاضا کریں گے جب وہ دیکھیں گے کہ کچھ تو قدموں تک آگ میں غائب ہوں گے اور کچھ نصف پنڈلی تک دوزخ میں ہوں گے۔ وہ جنہیں پہچان لیں گے انہیں وہاں سے نکال لائیں گے۔ پھر واپس آئیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا: جاؤ اور جس کے دل میں نصف دینار کے برابر ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ چنانچہ وہ جن کو پہچانتے ہوں گے ان کو وہاں سے نکال لائیں گے۔ پھر جب واپس آئیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جاؤ جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ۔ وہ جنہیں پہچانیں گے انہیں وہاں سے نکال لائیں گے۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم میری تصدیق نہیں کرتے تو یہ آیت کریمہ پڑھو: ’’بے شک اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر (بھی ) ظلم نہیں کرتا اور اگر کوئی نیکی ہو تو وہ اسے دگنا کردے گا۔‘‘ پھر انبیاء اہل ایمان اور فرشتے شفاعت کریں گے۔ اس کے بعد جبار (اللہ تعالیٰ) کا ارشاد ہوگا: اب خاص میری شفاعت باقی رہ گئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ دوزخ سے ایک مٹھی بھرے گا اور ایسے لوگوں کو نکالے گا جو جل کر کوئلہ ہو چکے ہوں گے۔ پھر وہ جنت کے ایک کنارے پر واقع نہر میں ڈال دیے جائیں گے جسے آب حیاب کہا جاتا ہے وہ نہر کے کنارے پر ایسے ابھریں گے جس طرح دانہ سیلاب کے خس وخاشاک (کوڑے کرکٹ) میں اُگتا ہے۔ تم نے یہ منظر کسی چٹان یا کسی درخت کے پاس دیکھا ہوگا۔ جس پر دھوپ رہتی ہے وہ سبز ابھرتا ہے اور جس پر سایہ ہوتا ہے وہ سفید ابھرتا ہے۔ وہ آب حیات سے اس طرح نکلیں گے جس طرح موتی چمکتا ہے ا سکے بعد ان کی گردنوں پر مہر لگا دی جائے گی (کہ یہ لوگ خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ ہیں) پھر وہ جنت میں داخل ہوں گے تو اہل جنت انہیں ”عتقاء الرحمن“ کے نام سے یاد کریں گے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے اچھا عمل یا بھلا کام کیے بغیر جنت میں داخل کیا ہے۔ان سے کہا جائے گا: تمہیں وہ سب کچھ ملے گا جو تم دیکھتے ہو اور اتنا ہی مزید دیا جائے گا۔