تشریح:
1۔مشرکین مکہ اپنی مرضی سے مہینوں کو آگے پیچھے کر لیتے تھے اسی طرح حرمت والے مہینے کو اپنے لیے حلال اور اس کی جگہ کسی دوسرے مہینے کو حرمت والا قرار دے لیتے۔ اس عمل کو (نسئي) قرار دیا گیا قرآن کریم نے اس عمل کو کفر میں زیادتی کہا ہے حتی کہ انھوں نے حرمت والے مہینوں کی تخصیص بھی ختم کر دی تھی۔ وہ سال کے مطلق چار مہینوں کو حرام قرار دے لیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حج کیا تواللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ تمام مہینے اپنے اصل حال پر لوٹ آئے تھے اور حج ذوالحجہ کے مہینے ہی میں ہوا تھا۔ حدیث کے آغاز میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے نیز رجب کو قبیلہ مضرکی طرف منسوب کیا گیا ہے کیونکہ یہ قبیلہ اس مہینے کا بہت احترام کرتا تھا۔
2۔چونکہ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ سے ملنے کا ذکر ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے دیدار الٰہی کو ثابت کیا ہے۔ انھوں نے ان احادیث سے مختلف انداز میں رؤیت باری تعالیٰ کو ثابت فرمایا ہے جبکہ معتزلہ نے اپنی عقل کے بل بوتے پر اس کا انکار کیا ہے اس سلسلے میں کچھ آیات بھی پیش کی جاتی ہیں جن سے وہ اپنے خیال کے مطابق اپنا مدعا ثابت کرتے ہیں اور اپنے انکارکے لیے جواز مہیا کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’نگاہیں اسے نہیں پا سکتیں جبکہ وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے۔‘‘ (الأنعام:103) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک موقع پر اس آیت کو اسی مقصد کے لیے پیش کیا تھا۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3068) بلا شبہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دنیا میں ان آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا البتہ قیامت کے دن اہل ایمان اللہ تعالیٰ سے ضرورمحو دیدار ہوں گے جیسا کہ کئی احادیث سے ثابت ہے جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے نیز اس آیت میں "ادراک" کی نفی ہے جس کے معنی کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنا ہیں البتہ رؤیت اور چیز ہے۔
3۔منکرین رؤیت ایک دوسری آیت بھی اپنی مقصد بر آری کے لیے پیش کرتے ہیں حضرت موسیٰ نے باری تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا۔‘‘ (الأعراف:143) لیکن اس آیت سے بھی مدعا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ واقعی اس فانی دنیا میں ان فانی آنکھوں سے اس زندہ جاوید ہستی کا دیدار نا ممکن ہے لیکن جب یہ فانی دنیا تبدیل ہو جائے گی اور انسانی ساخت بالخصوص اس کی آنکھوں میں تبدیلی لائی جائے گی تو وہ دیدارالٰہی کی متحمل ہو سکیں گی۔ چنانچہ اُخروی زندگی میں اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہونا بہت سی احادیث سے ثابت ہے۔
4۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے رؤیت باری تعالیٰ سے متعلق بیس (20) سے زیادہ احادیث جمع کی ہیں پھر امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے حادی الارواح میں ان کی پیروی کرتے ہوئے تیس (30) احادیث جمع کی ہیں ان میں سے اکثر کی سندیں جید ہیں۔ امادارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے انھوں نے فرمایا: رؤیت باری تعالیٰ سے متعلق میرے پاس سترہ (17) صحیح احادیث موجود ہیں۔ (فتح الباري:536/13) امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک مسلمان کے لیے یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ اہل ایمان قیامت کے دن میدان محشر میں اپنے رب کو ضرور دیکھیں گے۔ پھر جنت میں داخل ہونے کے بعد بھی دیدار الٰہی نصیب ہو گا۔ جیسا کہ متعدد متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ ہم قیامت کے دن اپنے رب کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح چودھویں رات کے چاند کو دیکھتے ہیں یا سورج کو دوپہر کے وقت دیکھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں کوئی وقت یا مشقت محسوس نہیں ہو گی۔ (مجموع الفتاوی:485/6) استاد محترم شیخ عبد اللہ بن محمد الغنیمان نے منکرین رؤیت کے عقلی اور نقلی دلائل ذکر کیے ہیں پھر ان کا شافی جواب دیا ہے۔ خوف طوالت سے ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔