صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
22. باب: ( سورۃ ہود میں اللہ کا فرمان ) اور اس کا عرش پانی پر تھا ، اور وہ عرش عظیم کا رب ہے،،
صحيح البخاري
98. كتاب التوحيد والرد علی الجهمية وغيرهم
22. بَابُ {وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ} [هود: 7]، {وَهُوَ رَبُّ العَرْشِ العَظِيمِ} [التوبة: 129]
Sahi-Bukhari
98. Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
22. Chapter: “…And His Throne was on the water…”
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: ( سورۃ ہود میں اللہ کا فرمان ) اور اس کا عرش پانی پر تھا ، اور وہ عرش عظیم کا رب ہے،،
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “…And His Throne was on the water…”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابوالعالیہ نے بیان کیا کہ «استوى إلى السماء» کا مفہوم یہ ہے کہ وہ آسمان کی طرف بلند ہوا۔ «فسواهن» یعنی پھر انہیں پیدا کیا۔ مجاہد نے کہا کہ «استوى» بمعنی «على العرش.» ہے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ «مجيد» بمعنی «كريم» ۔ «الودود» بمعنی«الحبيب.» بولتے ہیں۔ «حميد» ، «مجيد» ۔ گویا یہ فعیل کے وزن پر ماجد سے ہے اور «محمود» ، «حميد.» سے مشتق ہے۔
7490.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ کے ذمے ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے خواہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرے یا اسی زمین میں مقیم رہے جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم لوگوں کو اس سے مطلع نہ کریں ؟ آپ ﷺ نےفرمایا: ”جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیے ہیں۔ ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے، اس لیے تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو جنت فردوس کا سوال کیا کرو کیونکہ یہ جنت کا اعلیٰ اور بلند ترین درجہ ہے اور اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔“
تشریح:
1۔ان احادیث میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دوسرے انداز سے ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علو ثابت کی ہے۔ وہ اس طرح کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے لیے فوقیت کا اثبات ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلق کے اوپر ہے اوران سے جدا اور الگ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ)’’وہ اپنے بندوں پر غالب ہے۔‘‘(الأنعام61) نیز فرمایا: (يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ) ’’اللہ کے بندے اپنے رب سے ڈرتے ہیں جو ان کے اوپر ہے اور انھیں جو حکم دیا جائے اسے بجالاتے ہیں۔‘‘(النحل:50) 2۔اس سلسلے میں فرعون نے اپنے درباریوں کواُلو بنانے کے لیے ایک اسکیم تیار کی۔ وہ کہنے لگا: ’’اے ہامان! میرے لیے ایک بلند عمارت بنا تاکہ میں ان راستوں تک پہنچ سکو جو آسمانوں کے راستے ہیں۔موسیٰ کے الٰہ کی طرف جھانک کر دیکھوں اور بے شک میں تو اسے یقیناً جھوٹا ہی خیال کرتا ہوں۔‘‘(المومن:40۔37) یعنی موسیٰ جس الٰہ کی بات کرتا ہے میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کہاں اور کتنی بلندی پر ہے؟ اس آیت سے معلوم ہوتا ہےکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی ذات باری تعالیٰ کے متعلق یہی عقیدہ پیش کیا تھا کہ وہ آسمانوں کے اوپرہے۔ نیز جو اس کا انکار کرتا ہے وہ فرعون کا اتباع کرتا ہے چنانچہ علامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جہمیہ میں سے جس نے علو باری تعالیٰ کی نفی کی وہ فرعونی ہے اور جس نے علو کو ثابت کیا وہ موسوی اور محمدی ہے۔(شرح العقیدة الطحاویة: 259/1) 3۔علامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیسیوں دلائل سے ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت ثابت کی بلکہ فطرت کا تقاضا ہے کہ اس کے علو کو تسلیم کیا جائے کیونکہ انسان دعا کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو اوپر کی طرف اٹھاتا ہےاور نہایت عاجزی کے ساتھ جہت علو کا قصد کرتا ہے۔اس سے مقصود یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نیچے ہے بلکہ اس سے مقصود اللہ کے حضورخود کو ذلیل کرنا اور نیچا دکھانا ہوتا ہےاللہ تعالیٰ تو ایسی گھٹیا باتوں سے پاک ہے۔ (شرح العقیدہ الطحاویة: 372/1) پہلی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرش کے اوپر اپنے پاس لکھا۔ ’’میری رحمت میرے غصے سے سبقت لے گئی ہے۔‘‘ علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے معنی لکھے ہیں کہ اس کے پاس کائنات کا علم ہے جسے نہ وہ بھولے گا اور نہ اس میں تبدیلی ہی کرے گا۔ (فتح الباری:13/509) اہل علم اس تاویل کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کتاب خاص کو مبنی بر حقیقت تسلیم کرتے ہیں جسے اس نے اپنے پاس عرش پر رکھا ہے۔ یہ اس بات کے منافی نہیں کہ لوح محفوظ میں اسے الگ طور پر لکھا گیا ہے۔ بہر حال یہ کتاب حقیقت پر مبنی ہے اور عرش پر ہونا بھی حقیقت پر مبنی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا عرش کے اوپر ہونا بھی حقیقی ہے۔ اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا ہے اور اس کا عرش تمام مخلوقات سے اوپر اور ان سے الگ ہے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان:1/397)
ابوالعالیہ نے بیان کیا کہ «استوى إلى السماء» کا مفہوم یہ ہے کہ وہ آسمان کی طرف بلند ہوا۔ «فسواهن» یعنی پھر انہیں پیدا کیا۔ مجاہد نے کہا کہ «استوى» بمعنی «على العرش.» ہے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ «مجيد» بمعنی «كريم» ۔ «الودود» بمعنی«الحبيب.» بولتے ہیں۔ «حميد» ، «مجيد» ۔ گویا یہ فعیل کے وزن پر ماجد سے ہے اور «محمود» ، «حميد.» سے مشتق ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ کے ذمے ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے خواہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرے یا اسی زمین میں مقیم رہے جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم لوگوں کو اس سے مطلع نہ کریں ؟ آپ ﷺ نےفرمایا: ”جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیے ہیں۔ ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے، اس لیے تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو جنت فردوس کا سوال کیا کرو کیونکہ یہ جنت کا اعلیٰ اور بلند ترین درجہ ہے اور اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ان احادیث میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دوسرے انداز سے ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علو ثابت کی ہے۔ وہ اس طرح کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے لیے فوقیت کا اثبات ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلق کے اوپر ہے اوران سے جدا اور الگ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ)’’وہ اپنے بندوں پر غالب ہے۔‘‘(الأنعام61) نیز فرمایا: (يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ) ’’اللہ کے بندے اپنے رب سے ڈرتے ہیں جو ان کے اوپر ہے اور انھیں جو حکم دیا جائے اسے بجالاتے ہیں۔‘‘(النحل:50) 2۔اس سلسلے میں فرعون نے اپنے درباریوں کواُلو بنانے کے لیے ایک اسکیم تیار کی۔ وہ کہنے لگا: ’’اے ہامان! میرے لیے ایک بلند عمارت بنا تاکہ میں ان راستوں تک پہنچ سکو جو آسمانوں کے راستے ہیں۔موسیٰ کے الٰہ کی طرف جھانک کر دیکھوں اور بے شک میں تو اسے یقیناً جھوٹا ہی خیال کرتا ہوں۔‘‘(المومن:40۔37) یعنی موسیٰ جس الٰہ کی بات کرتا ہے میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کہاں اور کتنی بلندی پر ہے؟ اس آیت سے معلوم ہوتا ہےکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی ذات باری تعالیٰ کے متعلق یہی عقیدہ پیش کیا تھا کہ وہ آسمانوں کے اوپرہے۔ نیز جو اس کا انکار کرتا ہے وہ فرعون کا اتباع کرتا ہے چنانچہ علامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جہمیہ میں سے جس نے علو باری تعالیٰ کی نفی کی وہ فرعونی ہے اور جس نے علو کو ثابت کیا وہ موسوی اور محمدی ہے۔(شرح العقیدة الطحاویة: 259/1) 3۔علامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیسیوں دلائل سے ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت ثابت کی بلکہ فطرت کا تقاضا ہے کہ اس کے علو کو تسلیم کیا جائے کیونکہ انسان دعا کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو اوپر کی طرف اٹھاتا ہےاور نہایت عاجزی کے ساتھ جہت علو کا قصد کرتا ہے۔اس سے مقصود یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نیچے ہے بلکہ اس سے مقصود اللہ کے حضورخود کو ذلیل کرنا اور نیچا دکھانا ہوتا ہےاللہ تعالیٰ تو ایسی گھٹیا باتوں سے پاک ہے۔ (شرح العقیدہ الطحاویة: 372/1) پہلی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرش کے اوپر اپنے پاس لکھا۔ ’’میری رحمت میرے غصے سے سبقت لے گئی ہے۔‘‘ علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے معنی لکھے ہیں کہ اس کے پاس کائنات کا علم ہے جسے نہ وہ بھولے گا اور نہ اس میں تبدیلی ہی کرے گا۔ (فتح الباری:13/509) اہل علم اس تاویل کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کتاب خاص کو مبنی بر حقیقت تسلیم کرتے ہیں جسے اس نے اپنے پاس عرش پر رکھا ہے۔ یہ اس بات کے منافی نہیں کہ لوح محفوظ میں اسے الگ طور پر لکھا گیا ہے۔ بہر حال یہ کتاب حقیقت پر مبنی ہے اور عرش پر ہونا بھی حقیقت پر مبنی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا عرش کے اوپر ہونا بھی حقیقی ہے۔ اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا ہے اور اس کا عرش تمام مخلوقات سے اوپر اور ان سے الگ ہے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان:1/397)
ترجمۃ الباب:
ابو عالیہ نے کہا:( استوی إلی السماء)کا مفہوم یہ ہےکہ وہ آسمان کی طرف بلند ہوا اور (فسوّٰی) کے معنیٰ ہیں: اس نے پیدا کیا ¤مجاہد نے کہا: (استوی علی العرش) کے معنیٰ ہیں: وہ عرش پر بلند ہوا¤سیدنا ابن عباس ؓ نے فرمایا: (ذو العرش المجید) میں مجید کے معنی ہیں: کریم۔اور الودود کے معنی ہیں: حبیب جیسے حمید مجید کہا جاتا ہے گویا مجید ماجد سے ہے اور حمید محمود ،حمد سے ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے ہلال نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا، نماز قائم کی، رمضان کے روزے رکھے تو اللہ پر حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے۔ خواہ اس نے ہجرت کی ہو یا وہیں مقیم رہا ہو جہاں اس کی پیدائش ہوئی تھی۔ صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس کی اطلاع لوگوں کو نہ دے دیں؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیا ہے، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے۔ پس جب تم اللہ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو کیونکہ وہ درمیانہ درجے کی جنت ہے اور بلند ترین اور اس کے اوپر رحمان کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
جنتوں کو اورعرش کواسی طرح ترتیب سے تسلیم کرنا آیت (الذينَ يُومِنونَ بالغيبِ) كا تقاضا ہے۔ آمنا بما قال الله وقال رسوله
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Whoever believes in Allah and His Apostle (ﷺ) offers prayers perfectly and fasts (the month of) Ramadan then it is incumbent upon Allah to admit him into Paradise, whether he emigrates for Allah's cause or stays in the land where he was born." They (the companions of the Prophet) said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Should we not inform the people of that?" He said, "There are one-hundred degrees in Paradise which Allah has prepared for those who carry on Jihad in His Cause. The distance between every two degrees is like the distance between the sky and the Earth, so if you ask Allah for anything, ask Him for the Firdaus, for it is the last part of Paradise and the highest part of Paradise, and at its top there is the Throne of Beneficent, and from it gush forth the rivers of Paradise."