قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ} [الرحمن: 29] )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: {وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ} [الأنبياء: 2]، وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا} [الطلاق: 1] «وَأَنَّ حَدَثَهُ لاَ يُشْبِهُ حَدَثَ المَخْلُوقِينَ» لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ} وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: " إِنَّ اللَّهَ يُحْدِثُ مِنْ أَمْرِهِ مَا يَشَاءُ، وَإِنَّ مِمَّا أَحْدَثَ: أَنْ لاَ تَكَلَّمُوا فِي الصَّلاَةِ

7522. حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَيْفَ تَسْأَلُونَ أَهْلَ الْكِتَابِ عَنْ كُتُبِهِمْ وَعِنْدَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ أَقْرَبُ الْكُتُبِ عَهْدًا بِاللَّهِ تَقْرَءُونَهُ مَحْضًا لَمْ يُشَبْ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ اور (سورۃ انبیاء میں) فرمایا  کہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نیا حکم نہیں آتا۔ اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الطلاق میں  فرمان ممکن ہے کہ اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے۔ صرف اتنی بات ہے کہ اللہ کا کوئی نیا کام کرنا مخلوق کے نئے کام کرنے سے مشابہت نہیں رکھتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الشوری) میں فرمایا ہے   اس جیسی کوئی چیز نہیں (نہ ذات میں، نہ صفات میں) اور وہ بہت سننے والا، بہت دیکھنے والا ہے۔ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی کریم  کی یہ حدیث بیان کی کہ اللہ تعالیٰ جو نیا حکم چاہتا ہے دیتا ہے اور اس نے نیا حکم یہ دیا ہے کہ تم نماز میں باتیں نہ کرو۔تشریح:اس کو ابوداؤد نے وصل کیا ہے یہ باب لا کر امام بخاری نے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ کے صفات فعلیہ جیسے کلام کرنا ‘مارنا‘پیدا کرنا‘اترنا‘چڑھنا‘ہنسنا‘تعجب کرنا‘وقتاً فوقتاًحادث ہوتے رہتے ہیں اس طرح ہر ساعت اس پروردگار کے نئے نئے انتظامات نمود ہوتے رہتے ہیں نئے نئے احکام صادر ہوتے رہتے ہیں اور جن لوگوں نے صفات فعلیہ کا اس بنا پر انکار کیا ہے کہ وہ حادث ہیں اور اللہ تعالیٰ حوادث کا محل نہیں ہو سکتا ‘وہ بیوقوف ہیں قرآن حدیث سے یہ ثابت ہے کہ وہ نئے نئے کام کرتا ہے نئے نئے احکام اتارتا رہتا ہے ان اللہ علی کل شئی قدیر آیات باب میں پہلے یہ فرمایا کہ اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے یہ تنزیہہ ہوئی پھر فرمایا وہ سنتا اور جانتا ہے یہ اس کی صفات کا اثبات ہوا اہلحدیث اس اعتقاد پر ہیں جو متوسط  ہے درمیان تعطیل اور تشبیہ کے معطلہ تو جہمیہ اور معتزلہ ہیں جو اللہ اکی ان تمام صفات کا انکار کرتے ہیں جو مخلوق میں بھی پائے جاتے ہیں جیسے سننا ‘دیکھنا‘ بات کرنا وغیرہ اور مشبحہ مجسمہ ہیں جو اللہ پاک کی تمام صفات کو مخلوق سے مشابہت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بھی آدمی کی طرح گوشت پوست سے مرکب ہے ہماری طرح مترادف آنکھیں رکھتا ہے حالانکہ لیس کمثلہ شئی وھو السمیع البصیر اہل حدیث صفات باری کو کسی مخلوق سے مشابہت نہیں دیتے۔

7522.

سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: تم اہل کتاب سےان کی کتابوں کے متعلق کیوں دریافت کرتے ہو، حالانکہ تمہارے پاس جو خود اللہ کی کتاب موجود ہے جو زمانے کے اعتبار سے اللہ کی طرف سے نئی نئی آئی ہے۔ تم اسے پڑھتے ہو، وہ خالص ہے۔ اس میں کوئی ملاوٹ نہیں؟