صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
28. باب: اللہ کا فرمان ( سورۃ والصافات میں ) کہ’’ ہم تو پہلے ہی اپنے بھیجے ہوئے بندوں کے باب میں یہ فرما چکے ہیں کہ ایک روز ان کی مدد ہو گی اور ہمارا ہی لشکر غالب ہو گا‘‘
صحيح البخاري
98. كتاب التوحيد والرد علی الجهمية وغيرهم
28. بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا المُرْسَلِينَ} [الصافات: 171]
Sahi-Bukhari
98. Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
28. Chapter: “And, verily, Our Word has gone forth of old for Our slaves – the Messengers”
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ کا فرمان ( سورۃ والصافات میں ) کہ’’ ہم تو پہلے ہی اپنے بھیجے ہوئے بندوں کے باب میں یہ فرما چکے ہیں کہ ایک روز ان کی مدد ہو گی اور ہمارا ہی لشکر غالب ہو گا‘‘
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “And, verily, Our Word has gone forth of old for Our slaves – the Messengers”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7522.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم سے رسول اللہﷺ نے بیان فرمایا جو صادق ومصدوق ہیں: تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس طرح ہے کہ اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس رات نطفہ جمع رہتا ہے۔پھر وہ اسی طرح جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کرلیتا ہے پھر اتنے ہی دنوں میں گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے پھر اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے وہ اس کا رزق، اس کی موت، اس کا عمل، اور اس کا نیک یا بد ہونا لکھ لیتا ہے۔ اس کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ بے شک تم میں سے ایک اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آ جاتی ہے اور وہ اہل جہنم کے سے عمل کرنے لگتا ہے اور دوذخ میں داخل ہو جاتا ہے اسی طرح ایک شخص اہل جہنم کے سے عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اس کےاور دوزخ کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو تقدیر غالب آ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ اہل جنت کے سے عمل کرنے لگتا ہے پھر وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔
تشریح:
1۔انسان اپنی پیدائش سے پہلے جن مراحل سے گزرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی بیان کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے محفوظ مقام (رحم مادر) میں نطفہ بنا کر رکھا پھر نطفے کو لوتھڑا (جما ہوا خون بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا پھر بوٹی کو ہڈیاں بنایا پھر ہم نے ہڈیوں پر کچھ گوشت چڑھایا پھر ہم نے اسے ایک اور ہی صورت میں پیدا کر دیا۔ پس بڑا با برکت ہے اللہ جو سب بنانے والوں سے بہتر بنانے والاہے۔‘‘ (المومنون23۔12) 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کے اعمال و کردار سے اس کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم اور اس کی قدرت بہت وسیع ہے اور اس نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے اور وہی اشیاء کی حقیقت ان کی پیدا ئش سے پہلے جانتا ہے نیز اس نے ہر چیز کو اپنے ہاں لکھ رکھا ہے۔ آئندہ وقوع پذیر ہونے والے حوادث اس تقدیر کے مطابق ہوتے ہیں اس حدیث میں جس تقدیر کے لکھنے کا ذکر ہے یہ اس لکھی ہوئی تقدیر سے علیحدہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کائنات سے پہلے لکھ رکھا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’کوئی بھی مصیبت جو زمین میں آتی ہے یا خود تمھارے نفوس کو پہنچتی ہے وہ ہمارے پیدا کرنے سے پہلے ہی ایک کتاب لکھی ہوئی ہے۔‘‘(الحدید57۔22) 3۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے کائنات میں ہونے والے واقعات تحریر کر لیے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6748ـ2653) اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور واقعات کی تحریر انسان کے ارادے اور اختیار کے منافی نہیں۔ بہر حال اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ اہل سعادت کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ کی رحمت نے انھیں اپنے گھیرے میں لے لیا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا اندازہ ٹھہرا لیا اور اسے اپنے پاس لکھ لیا پھر عمل کی توفیق دی اور اس کے لیے اسباب اور ذرائع پیدا کیے گویا یہ تمام مراحل درج ذیل آیت کا حصہ ہیں جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بطورعنوان منتخب کیا ہے۔ ’’اور ہمارے بندے جو رسول ہیں ان کے حق میں پہلے ہی ہماری بات صادر ہو چکی ہے کہ یقیناً ان کی مدد کی جائے گی اور بے شک ہمارا لشکر یقیناً وہی غالب رہے گا۔‘‘
مضمون سے متعلقہ آیات حسب ذیل ہیں۔"اور ہمارے بندے جو رسول ہیں ان کے حق میں پہلے ہی ہماری بات صادر ہو چکی ہے کہ بے شک وہ یقیناًان کی مدد کی جائے گی اور بے شک ہمارا لشکر یقیناً وہی غالب رہے گا۔"(الصافات:37۔171۔173)اس غلبے سے مراد صرف سیاسی غلبہ ہی نہیں بلکہ اس سے مراد اخلاقی اقدار اور دین کی اصولی باتوں کا غلبہ ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن قوموں نے حق کی مخالفت کی وہ بالآخر تباہ ہو گئیں مگر جن حقائق کو ہزار ہا برس سے اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہ السلام پیش کرتے رہے وہ پہلے بھی اٹل تھے اور آج بھی اٹل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان سے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت کلام قدیم ہو گی البتہ مخلوق سے اس کا تعلق حادث ہو گا۔چنانچہ مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور کلام زمین و آسمان کی پیدائش سے پہلے کے ہیں جیسا کہ آئندہ احادیث سے اس امر کی مزید وضاحت ہوگی دراصل محدثین کی تائید میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ موقف ہے کہ قرآن غیر مخلوق ہے یہ اور آئندہ ابواب بطور تمہید کے قائم کیے ہیں۔ واللہ اعلم۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم سے رسول اللہﷺ نے بیان فرمایا جو صادق ومصدوق ہیں: تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس طرح ہے کہ اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس رات نطفہ جمع رہتا ہے۔پھر وہ اسی طرح جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کرلیتا ہے پھر اتنے ہی دنوں میں گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے پھر اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے وہ اس کا رزق، اس کی موت، اس کا عمل، اور اس کا نیک یا بد ہونا لکھ لیتا ہے۔ اس کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ بے شک تم میں سے ایک اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آ جاتی ہے اور وہ اہل جہنم کے سے عمل کرنے لگتا ہے اور دوذخ میں داخل ہو جاتا ہے اسی طرح ایک شخص اہل جہنم کے سے عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اس کےاور دوزخ کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو تقدیر غالب آ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ اہل جنت کے سے عمل کرنے لگتا ہے پھر وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔انسان اپنی پیدائش سے پہلے جن مراحل سے گزرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی بیان کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے محفوظ مقام (رحم مادر) میں نطفہ بنا کر رکھا پھر نطفے کو لوتھڑا (جما ہوا خون بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا پھر بوٹی کو ہڈیاں بنایا پھر ہم نے ہڈیوں پر کچھ گوشت چڑھایا پھر ہم نے اسے ایک اور ہی صورت میں پیدا کر دیا۔ پس بڑا با برکت ہے اللہ جو سب بنانے والوں سے بہتر بنانے والاہے۔‘‘ (المومنون23۔12) 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کے اعمال و کردار سے اس کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم اور اس کی قدرت بہت وسیع ہے اور اس نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے اور وہی اشیاء کی حقیقت ان کی پیدا ئش سے پہلے جانتا ہے نیز اس نے ہر چیز کو اپنے ہاں لکھ رکھا ہے۔ آئندہ وقوع پذیر ہونے والے حوادث اس تقدیر کے مطابق ہوتے ہیں اس حدیث میں جس تقدیر کے لکھنے کا ذکر ہے یہ اس لکھی ہوئی تقدیر سے علیحدہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کائنات سے پہلے لکھ رکھا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’کوئی بھی مصیبت جو زمین میں آتی ہے یا خود تمھارے نفوس کو پہنچتی ہے وہ ہمارے پیدا کرنے سے پہلے ہی ایک کتاب لکھی ہوئی ہے۔‘‘(الحدید57۔22) 3۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے کائنات میں ہونے والے واقعات تحریر کر لیے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6748ـ2653) اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور واقعات کی تحریر انسان کے ارادے اور اختیار کے منافی نہیں۔ بہر حال اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ اہل سعادت کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ کی رحمت نے انھیں اپنے گھیرے میں لے لیا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا اندازہ ٹھہرا لیا اور اسے اپنے پاس لکھ لیا پھر عمل کی توفیق دی اور اس کے لیے اسباب اور ذرائع پیدا کیے گویا یہ تمام مراحل درج ذیل آیت کا حصہ ہیں جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بطورعنوان منتخب کیا ہے۔ ’’اور ہمارے بندے جو رسول ہیں ان کے حق میں پہلے ہی ہماری بات صادر ہو چکی ہے کہ یقیناً ان کی مدد کی جائے گی اور بے شک ہمارا لشکر یقیناً وہی غالب رہے گا۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے کہا میں نے زید بن وہب سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے سنا کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا جو صادق و مصدق ہیں کہ انسان کا نطفہ ماں کے پیٹ میں چالیس دن اور راتوں تک جمع رہتا ہے پھر وہ خون کی پھٹکی بن جاتا ہے، پھر وہ گوشت کا لوتھڑا ہو جاتا ہے پھر اس کے بعد فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اس کی روزی، اس کی موت، اس کا عمل اور یہ کہ وہ بدبخت ہے یا نیک بخت لکھ لیتا ہے۔ پھر اس میں روح پھونکتا ہے اور تم میں سے ایک شخص جنت والوں کے سے عمل کرتا ہے اور جب اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فرق رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آتی ہے اور وہ دوزخ والوں کے عمل کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں داخل ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص دوزخ والوں کے عمل کرتا ہے اور جب اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو تقدیر غالب آتی ہے اور جنت والوں کے کام کرنے لگتا ہے، پھر جنت میں داخل ہوتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
تواعتبار خاتمہ کا ہے۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاری نے یہ ثابت کیا کہ اللہ کا کلام حادث ہوتا ہے کیونکہ جب نطفہ پر چارمہینے گزر لیتے ہیں، اس وقت فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اللہ تعالی صرف چار چیزوں کے لکھنے کا اس کو حکم دیتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Mas'ud (RA): Allah's Apostle (ﷺ) the true and truly inspired, narrated to us, "The creation of everyone of you starts with the process of collecting the material for his body within forty days and forty nights in the womb of his mother. Then he becomes a clot of thick blood for a similar period (4O days) and then he becomes like a piece of flesh for a similar period. Then an angel is sent to him (by Allah) and the angel is allowed (ordered) to write four things; his livelihood, his (date of) death, his deeds, and whether he will be a wretched one or a blessed one (in the Hereafter) and then the soul is breathed into him. So one of you may do (good) deeds characteristic of the people of Paradise so much that there is nothing except a cubit between him and Paradise but then what has been written for him decides his behavior and he starts doing (evil) deeds characteristic of the people of Hell (Fire) and (ultimately) enters Hell (Fire); and one of you may do (evil) deeds characteristic of the people of Hell (Fire) so much so that there is nothing except a cubit between him and Hell (Fire), then what has been written for him decides his behavior and he starts doing (good) deeds characteristic of the people of Paradise and ultimately) enters Paradise." (See Hadith No. 430, Vol. 4)