تشریح:
1۔شارح صحیح بخاری ابن بطال نے لکھا ہے کہ اس عنوان سے مقصود اللہ تعالیٰ کے لیے صفت علم کا ثابت کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں آواز کا بلند یا پست ہونا کوئی حیثیت نہیں رکھتا، وہ تو دل کی باتوں کو بھی جانتا ہے لیکن اس مقصد کی نشان دہی پیش کردہ احادیث سے نہیں ہوتی۔
2۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ آیت کریمہ میں قول سے مراد عام ہے۔ اگر اس سے مراد قرآن کریم ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے جیسا کہ دلائل سے ثابت ہو چکا ہے اور اگر اس سے مراد عام گفتگو ہے تو وہ بندے کا فعل ہے جو مخلوق ہے جیسا کہ آیت کے آخری حصے میں ہے: ’’کیا وہ اپنی مخلوق کے متعلق معلومات نہیں رکھتا۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بندے کی گفتگو، خواہ باآواز بلند ہو یا آہستہ وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہے۔ (فتح الباري: 624/13)
3۔ابن منیر نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مقصد کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ بندے کی تلاوت بلند اور آہستہ ہوتی ہے جو بندے کا فعل ہے اور مخلوق ہے البتہ جو چیز پڑھی جاتی ہے۔وہ اللہ تعالیٰ کا کلام اور غیر مخلوق ہے۔ چونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مسئلہ خلق قرآن کے متعلق آزمائش میں بھی ڈالے گئے تھے، اس لیے اس مسئلے کو مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں۔ (فتح الباري: 624/13) ہماری رجحان کے مطابق آخری موقف ہی مبنی برحقیقت اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے فکر کی ترجمانی کرتا ہے اور پیش کردہ احادیث سے بھی اسی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ واللہ المستعان۔