Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
96. Chapter: Recitation of the Qur'an (Surat Al-Fatiha) is compulsory for the Imam and the followers, at the home and on journey, in all As-Salat (the prayers) whether the recitation is done silently or aloud
باب: امام اور مقتدی کے لیے قرآت کا واجب ہونا، حضر اور سفر ہر حالت میں، سری اور جہری سب نمازوں میں۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Recitation of the Qur'an (Surat Al-Fatiha) is compulsory for the Imam and the followers, at the home and on journey, in all As-Salat (the prayers) whether the recitation is done silently or aloud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
766.
حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ اہل کوفہ نے حضرت عمر ؓ سے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی شکایت کی تو حضرت عمر ؓ نے انہیں معزول کر کے حضرت عمار بن یاسر ؓ کو ان (کوفیوں) پر تعینات کر دیا۔ الغرض ان لوگوں نے حضرت سعد ؓ کی بہت شکایات کیں۔ یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اچھی نماز نہیں پڑھتے۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے انہیں بلا بھیجا اور کہا: اے ابواسحاق! یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم نماز اچھی طرح نہیں پڑھتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میں انہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھاتا تھا۔ میں نے اس میں ذرہ بھر بھی کوتاہی کو روا نہیں رکھا۔ میں نماز عشاء پڑھاتا تو پہلی دو رکعتوں میں زیادہ دیر لگاتا اور آخری دو رکعتوں میں تخفیف کرتا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اے ابو اسحاق! تمہاری نسبت ہمارا گمان یہی ہے۔ پھر آپ نے ایک شخص یا چند اشخاص کو حضرت سعد ؓ کے ہمراہ کوفہ روانہ کیا (تاکہ وہ اہل کوفہ سے حضرت سعد ؓ سے متعلق شکایات کی تحقیق کریں) انہوں نے وہاں جا کر کوئی مسجد نہ چھوڑی جہاں حضرت سعد ؓ کا حال نہ پوچھا ہو۔ سب لوگوں نے ان کی تعریف کی۔ پھر وہ قبیلہ عبس کی مسجد میں گئے تو وہاں ایک شخص کھڑا ہوا جس کی کنیت ابوسعدہ تھی اور اسے اسامہ بن قتادہ کہا جاتا تھا، وہ بولا: جب تم نے ہمیں قسم دلائی ہے تو سنیں! سعد (ؓ) جہاد میں لشکر کے ساتھ خود نہ جاتے تھے اور نہ ہی مال غنیمت میں برابر تقسیم کرتے تھے، نیز مقدمات میں انصاف سے کام نہ لیتے تھے۔ حضرت سعد ؓ نے یہ سن کر کہا: اللہ کی قسم! میں تجھے تین بد دعائیں دیتا ہوں: اے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف لوگوں کو دکھانے یا سنانے کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمر دراز کر دے، اس کی فقیری بڑھا دے اور آفتوں میں پھنسا دے۔ (چنانچہ ایسا ہی ہوا) اس کے بعد جب اس سے اس کا حال دریافت کیا جاتا تو کہتا کہ میں ایک آفت رسیدہ، دراز عمر بوڑھا ہوں۔ مجھے حضرت سعد ؓ کی بددعا لگ گئی ہے۔ عبدالملک راوی کہتا ہے کہ میں نے بھی اسے دیکھا تھا۔ بڑھاپے کی حالت میں اس کے دونوں ابرو آنکھوں پر گرنے کے باوجود وہ راستے چلتی چھوکریوں کو چھیڑتا اور ان پر دست درازی کرتا پھرتا تھا۔
تشریح:
(1) حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے انھیں چودہ ہجری میں ایران فتح کرنے پر مامور کیا، عراق پر بھی ایرانیوں کی حکومت تھی، عراق فتح ہونے کے بعد سترہ ہجری میں وہاں کوفہ اور بصرہ نئے شہر آباد کرنے کا منصوبہ زیر بحث آیا، چنانچہ ان کی نگرانی میں یہ دونوں شہر آباد ہوئے۔ حضرت سعد ؓ اکیس ہجری تک وہاں کے گورنر رہے، اسی ضمن میں اہل کوفہ کے چند شرپسندوں نے انھیں بدنام کرنے کے لیے ان کے خلاف جھوٹی شکایات کا پلندہ تیار کیا۔ شکایات کرنے والوں میں قبیلۂ بنو اسد کے جراح بن سنان، قبیصہ اور اربد، نیز ان کے علاوہ ایک اور شخص اشعت بن قیس پیش پیش تھے۔ حضرت عمر ؓ نے انھیں معزول کرکے حضرت عمار بن یاسر ؓ کو نماز پڑھانے کے لیے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو بیت المال کی نگرانی اور حضرت عثمان بن حنیف ؓ کو مفتوحہ علاقوں کی پیمائش کرنے پر مامور فرمایا۔ روایات میں وضاحت ہے کہ جب حضرت عمر ؓ نے تفتیش کی تو تمام شکایات بے سروپا ثابت ہوئیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت سعد ؓ کو ان کی بے بسی، عاجزی یا خیانت کی بنا پر معزول نہیں کیا۔ حضرت سعد نے اس حدیث میں نماز کے متعلق جو تفصیل بیان کی ہے، اسے رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا۔ اس سے عنوان بالا کے جملہ مقاصد ثابت ہوتے ہیں، چنانچہ شارح بخاری علامہ ابن بطال ؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے حدیث سعد کو مذکورہ عنوان کے تحت بیان کیا ہے کیونکہ اس میں عشاء کی پہلی دو رکعات کو لمبا اور آخری دو رکعات کو ہلکا کرنے کا بیان ہے۔ اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سعد ؓ نماز کی کسی رکعت میں قراءت ترک نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی نماز جیسی نماز پڑھاتا ہوں۔ جب اس وضاحت کو رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کے ساتھ ملایا جائے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے تو اس سے نماز میں قراءت کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ چونکہ حضرت سعد امام تھے، اس لیے عنوان کے ایک جز کے ساتھ مطابقت ہو گئی۔ عنوان کے دیگر اجزاء دوسری احادیث سے ثابت ہوتے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔ واضح رہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت سعد کے ہمراہ حقیقت حال کا جائزہ لینے کے لیے حضرت محمد بن مسلمہ اور عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہم کو بھیجا تھا۔ (فتح الباري:308/2۔310) (2) امام بخاری ؒ کا وجوب قراءت فاتحہ کے ثبوت میں، حدیث سعد ؓ کا انتخاب کرنا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ ہمارے وجدان کے مطابق یہ آپ کی دور اندیش اور بالغ نظری کا ایک بین اور واضح ثبوت ہے کیونکہ جس طرح سفہائے عراق نے حضرت سعد کی نماز کے خلاف طوفان بدتمیزی کھڑا کیا، اس طرح فقہائے عراق نے نماز کی قراءت کو تختۂ مشق بنایا ہے۔ قبیلۂ بنو اسد کے چند اوباش اور شرپسند لوگوں کو مستجاب الدعوات اور صحابئ جلیل حضرت سعد ؓ کی نماز کے متعلق یہی اعتراض تھا کہ یہ اپنی نماز کی تمام رکعات میں مساویانہ قراءت کیوں نہیں کرتے، اس کے برعکس ان کا پہلی دو رکعات کو طویل کرنا چہ معنی دارد؟ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے ان جہلاء کے اعتراض کی وضاحت کی ہے۔ (فتح الباري:309/2) بلکہ اس جہلانہ اعتراض کے پیش نظر حضرت سعد ؓ نے ان کے متعلق بایں الفاظ تبصرہ فرمایا کہ گنوار مجھے نماز سکھانے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1019 (453)) فقہائے عراق بھی اسی قراءت کے متعلق تضادات کا شکار ہیں، چنانچہ ان کے ہاں مطلق قراءت فرض ہے، قراءت فاتحہ واجب اور قراءت فاتحہ خلف الامام کے متعلق کوئی نرم گوشہ نہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ قراءت فاتحہ امام اور منفرد کے لیے پہلی دورکعات میں واجب ہے۔ اگر ان میں بھی سہوا رہ جائے تو سجدۂ سہو سے کام چل جائے گا، ان رکعات کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ واجب کے ترک کر دینے کی تلافی سجدۂ سہو ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف ان کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر دوآیات باہم متعارض ہوں تو وہ محل استدلال سے گرجاتی ہیں، پھر اس قاعدے کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ ﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾’’قرآن میں سے جو تمھیں آسان ہو،اسے (نماز میں) پڑھو۔‘‘(المزمل: 20:73) یہ آیت ایک دوسری آیت سے متعارض ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿٢٠٤﴾’’ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی اختیار کرتے ہوئے اسے بغور سنو۔‘‘ (الاعراف204:7)ان دونوں آیات کا تعلق نماز سے ہے اور دونوں میں تعارض ہے،لہٰذا دونوں ساقط ہیں اور ان میں سے کسی کو بطور دلیل نہیں پیش کیا جاسکتا۔ (نورالأنوار،طبع مکتبہ رحمانیہ،لاھور،ص:194،193.(بحث وقوع التعارض بين الحجج) (738/277) صفحہ نمبر) واضح رہے کہ فقہائے عراق نے مطلق قراءت کی فرضیت کے لیے سورۂ مزمل کی مذکورہ بالا آیت کو بطور دلیل پیش کیا اور فاتحہ خلف الامام سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے سورۂ اعراف کی مذکورہ آیت کو بطور ڈھال استعمال کیا، دوسری طرف ان دونوں آیات کو محل استدلال سے ساقط کر دکھایا۔واضح رہے کہ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق اس میں کوئی اختلاف یا آیات میں باہمی تعارض نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴿٨٢﴾’’ اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو لوگ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔‘‘ (النسآء82:4) سرسری نظر سے دیکھنے سے جو اختلافات نظر آتے ہیں اس کی وجہ عدم رسوخ یا قرآن کریم کے جملہ مضامین پر پوری طرح مطلع نہ ہونا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
747
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
755
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
755
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
755
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
نماز میں قراءتِ فاتحہ کے متعلق بعض اہل علم کا موقف ہے کہ نماز میں قراءت فاتحہ فرض نہیں بلکہ مطلق قراءت فرض ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ) : اور قرآن سے جو میسر ہو پڑھو۔"(المزمل20:73) ان کے نزدیک اس آیت کریمہ میں مطلق قراءت کا ذکر ہے اور وہ ایک آیت بھی ہوسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کی ترید میں مذکورہ بالا عنوان قائم کیا ہے اور اس کے لیے بڑے محتاط الفاظ کا انتخاب کیا ہے،حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ:" قرآن سے جو میسر ہو پڑھو" سے مراد بھی سورۂ فاتحہ ہے جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔(سنن ابی داؤد،الصلاۃ،حدیث:859) اس عنوان میں امام بخاری رحمہ اللہ نے منفرد نمازی،یعنی اکیلے نماز پڑھنے والے کا ذکر نہیں کیا کیونکہ اس کا حکم امام جیسا ہے۔پھر سفر کی نماز کا بطور خاص ذکر کیا ہے تاکہ یہ وہم نہ کیا جائے کہ شاید اس میں قراءت ضروری نہیں کیونکہ اس میں کچھ رکعات کم ادا کرنے کی اجازت ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کے مذکورہ عنوان میں بڑی جامعیت ہے کہ کوئی بھی نماز ہو اور کوئی بھی شخص ہو،خواہ منفرد ہو،مقتدی ہو یا امام،کسی نمازی کی کوئی نماز قراءت فاتحہ کے بغیر نہیں ہوتی۔آپ نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے جس کا نام" جزء القراءۃ "ہے۔ہم ان شاءاللہ آئندہ فوائد میں اس سے بھی استفادہ کریں گے۔
حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ اہل کوفہ نے حضرت عمر ؓ سے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی شکایت کی تو حضرت عمر ؓ نے انہیں معزول کر کے حضرت عمار بن یاسر ؓ کو ان (کوفیوں) پر تعینات کر دیا۔ الغرض ان لوگوں نے حضرت سعد ؓ کی بہت شکایات کیں۔ یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اچھی نماز نہیں پڑھتے۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے انہیں بلا بھیجا اور کہا: اے ابواسحاق! یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم نماز اچھی طرح نہیں پڑھتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میں انہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھاتا تھا۔ میں نے اس میں ذرہ بھر بھی کوتاہی کو روا نہیں رکھا۔ میں نماز عشاء پڑھاتا تو پہلی دو رکعتوں میں زیادہ دیر لگاتا اور آخری دو رکعتوں میں تخفیف کرتا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اے ابو اسحاق! تمہاری نسبت ہمارا گمان یہی ہے۔ پھر آپ نے ایک شخص یا چند اشخاص کو حضرت سعد ؓ کے ہمراہ کوفہ روانہ کیا (تاکہ وہ اہل کوفہ سے حضرت سعد ؓ سے متعلق شکایات کی تحقیق کریں) انہوں نے وہاں جا کر کوئی مسجد نہ چھوڑی جہاں حضرت سعد ؓ کا حال نہ پوچھا ہو۔ سب لوگوں نے ان کی تعریف کی۔ پھر وہ قبیلہ عبس کی مسجد میں گئے تو وہاں ایک شخص کھڑا ہوا جس کی کنیت ابوسعدہ تھی اور اسے اسامہ بن قتادہ کہا جاتا تھا، وہ بولا: جب تم نے ہمیں قسم دلائی ہے تو سنیں! سعد (ؓ) جہاد میں لشکر کے ساتھ خود نہ جاتے تھے اور نہ ہی مال غنیمت میں برابر تقسیم کرتے تھے، نیز مقدمات میں انصاف سے کام نہ لیتے تھے۔ حضرت سعد ؓ نے یہ سن کر کہا: اللہ کی قسم! میں تجھے تین بد دعائیں دیتا ہوں: اے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف لوگوں کو دکھانے یا سنانے کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمر دراز کر دے، اس کی فقیری بڑھا دے اور آفتوں میں پھنسا دے۔ (چنانچہ ایسا ہی ہوا) اس کے بعد جب اس سے اس کا حال دریافت کیا جاتا تو کہتا کہ میں ایک آفت رسیدہ، دراز عمر بوڑھا ہوں۔ مجھے حضرت سعد ؓ کی بددعا لگ گئی ہے۔ عبدالملک راوی کہتا ہے کہ میں نے بھی اسے دیکھا تھا۔ بڑھاپے کی حالت میں اس کے دونوں ابرو آنکھوں پر گرنے کے باوجود وہ راستے چلتی چھوکریوں کو چھیڑتا اور ان پر دست درازی کرتا پھرتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے انھیں چودہ ہجری میں ایران فتح کرنے پر مامور کیا، عراق پر بھی ایرانیوں کی حکومت تھی، عراق فتح ہونے کے بعد سترہ ہجری میں وہاں کوفہ اور بصرہ نئے شہر آباد کرنے کا منصوبہ زیر بحث آیا، چنانچہ ان کی نگرانی میں یہ دونوں شہر آباد ہوئے۔ حضرت سعد ؓ اکیس ہجری تک وہاں کے گورنر رہے، اسی ضمن میں اہل کوفہ کے چند شرپسندوں نے انھیں بدنام کرنے کے لیے ان کے خلاف جھوٹی شکایات کا پلندہ تیار کیا۔ شکایات کرنے والوں میں قبیلۂ بنو اسد کے جراح بن سنان، قبیصہ اور اربد، نیز ان کے علاوہ ایک اور شخص اشعت بن قیس پیش پیش تھے۔ حضرت عمر ؓ نے انھیں معزول کرکے حضرت عمار بن یاسر ؓ کو نماز پڑھانے کے لیے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو بیت المال کی نگرانی اور حضرت عثمان بن حنیف ؓ کو مفتوحہ علاقوں کی پیمائش کرنے پر مامور فرمایا۔ روایات میں وضاحت ہے کہ جب حضرت عمر ؓ نے تفتیش کی تو تمام شکایات بے سروپا ثابت ہوئیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت سعد ؓ کو ان کی بے بسی، عاجزی یا خیانت کی بنا پر معزول نہیں کیا۔ حضرت سعد نے اس حدیث میں نماز کے متعلق جو تفصیل بیان کی ہے، اسے رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا۔ اس سے عنوان بالا کے جملہ مقاصد ثابت ہوتے ہیں، چنانچہ شارح بخاری علامہ ابن بطال ؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے حدیث سعد کو مذکورہ عنوان کے تحت بیان کیا ہے کیونکہ اس میں عشاء کی پہلی دو رکعات کو لمبا اور آخری دو رکعات کو ہلکا کرنے کا بیان ہے۔ اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سعد ؓ نماز کی کسی رکعت میں قراءت ترک نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی نماز جیسی نماز پڑھاتا ہوں۔ جب اس وضاحت کو رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کے ساتھ ملایا جائے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے تو اس سے نماز میں قراءت کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ چونکہ حضرت سعد امام تھے، اس لیے عنوان کے ایک جز کے ساتھ مطابقت ہو گئی۔ عنوان کے دیگر اجزاء دوسری احادیث سے ثابت ہوتے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔ واضح رہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت سعد کے ہمراہ حقیقت حال کا جائزہ لینے کے لیے حضرت محمد بن مسلمہ اور عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہم کو بھیجا تھا۔ (فتح الباري:308/2۔310) (2) امام بخاری ؒ کا وجوب قراءت فاتحہ کے ثبوت میں، حدیث سعد ؓ کا انتخاب کرنا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ ہمارے وجدان کے مطابق یہ آپ کی دور اندیش اور بالغ نظری کا ایک بین اور واضح ثبوت ہے کیونکہ جس طرح سفہائے عراق نے حضرت سعد کی نماز کے خلاف طوفان بدتمیزی کھڑا کیا، اس طرح فقہائے عراق نے نماز کی قراءت کو تختۂ مشق بنایا ہے۔ قبیلۂ بنو اسد کے چند اوباش اور شرپسند لوگوں کو مستجاب الدعوات اور صحابئ جلیل حضرت سعد ؓ کی نماز کے متعلق یہی اعتراض تھا کہ یہ اپنی نماز کی تمام رکعات میں مساویانہ قراءت کیوں نہیں کرتے، اس کے برعکس ان کا پہلی دو رکعات کو طویل کرنا چہ معنی دارد؟ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے ان جہلاء کے اعتراض کی وضاحت کی ہے۔ (فتح الباري:309/2) بلکہ اس جہلانہ اعتراض کے پیش نظر حضرت سعد ؓ نے ان کے متعلق بایں الفاظ تبصرہ فرمایا کہ گنوار مجھے نماز سکھانے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1019 (453)) فقہائے عراق بھی اسی قراءت کے متعلق تضادات کا شکار ہیں، چنانچہ ان کے ہاں مطلق قراءت فرض ہے، قراءت فاتحہ واجب اور قراءت فاتحہ خلف الامام کے متعلق کوئی نرم گوشہ نہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ قراءت فاتحہ امام اور منفرد کے لیے پہلی دورکعات میں واجب ہے۔ اگر ان میں بھی سہوا رہ جائے تو سجدۂ سہو سے کام چل جائے گا، ان رکعات کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ واجب کے ترک کر دینے کی تلافی سجدۂ سہو ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف ان کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر دوآیات باہم متعارض ہوں تو وہ محل استدلال سے گرجاتی ہیں، پھر اس قاعدے کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ ﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾’’قرآن میں سے جو تمھیں آسان ہو،اسے (نماز میں) پڑھو۔‘‘(المزمل: 20:73) یہ آیت ایک دوسری آیت سے متعارض ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿٢٠٤﴾’’ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی اختیار کرتے ہوئے اسے بغور سنو۔‘‘ (الاعراف204:7)ان دونوں آیات کا تعلق نماز سے ہے اور دونوں میں تعارض ہے،لہٰذا دونوں ساقط ہیں اور ان میں سے کسی کو بطور دلیل نہیں پیش کیا جاسکتا۔ (نورالأنوار،طبع مکتبہ رحمانیہ،لاھور،ص:194،193.(بحث وقوع التعارض بين الحجج) (738/277) صفحہ نمبر) واضح رہے کہ فقہائے عراق نے مطلق قراءت کی فرضیت کے لیے سورۂ مزمل کی مذکورہ بالا آیت کو بطور دلیل پیش کیا اور فاتحہ خلف الامام سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے سورۂ اعراف کی مذکورہ آیت کو بطور ڈھال استعمال کیا، دوسری طرف ان دونوں آیات کو محل استدلال سے ساقط کر دکھایا۔واضح رہے کہ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق اس میں کوئی اختلاف یا آیات میں باہمی تعارض نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴿٨٢﴾’’ اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو لوگ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔‘‘ (النسآء82:4) سرسری نظر سے دیکھنے سے جو اختلافات نظر آتے ہیں اس کی وجہ عدم رسوخ یا قرآن کریم کے جملہ مضامین پر پوری طرح مطلع نہ ہونا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالملک بن عمیر نے جابر بن سمرہ ؓ سے بیان کیا، کہا کہ اہل کوفہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی حضرت عمر فاروق ؓ سے شکایت کی۔ اس لیے حضرت عمر ؓ نے ان کو علیحدہ کر کے حضرت عمار ؓ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے ان کو بلا بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم میں تو انھیں نبی کریم ﷺ ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا، اس میں کوتاہی نہیں کرتا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی دو پہلی رکعات میں (قرآت) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ اے ابواسحاق! مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔ پھر آپ نے حضرت سعد ؓ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے۔ تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ جب آپ نے خدا کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو (سنئیے کہ) سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے، نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ حضرت سعد ؓ نے ( یہ سن کر ) فرمایا کہ خدا کی قسم میں ( تمہاری اس بات پر ) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمر دراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد (وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا کہ ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد ؓ کی بددعا لگ گئی۔ عبدالملک نے بیان کیا کہ میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھی۔ لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت سعد ؓ نے نماز کی جوتفصیل بیان کی اوراس کونبی ﷺ کی طرف منسوب کیااسی سے باب کے جملہ مقاصد ثابت ہوگئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، یہ مستجاب الدعوات تھے، آنحضرت ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی تھی۔ عہدفاروقی میں یہ کوفہ کے گورنر تھے۔ مگرکوفہ والوں کی بے وفائی مشہور ہے۔ انھوں نے حضرت سعد ؓ کے خلاف جھوٹی شکایتیں کیں۔ آخرحضرت عمرؓ نے وہاں کے حالات کا اندازہ فرماکر حضرت عمار ؓ کو نماز پڑھانے کے لیے اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو بیت المال کی حفاظت کے لیے مقرر فرمایا۔ حضرت سعدرؓ کی فضیلت کے لیے یہ کافی ہے کہ جنگ احد میں انھوں نے آنحضرت ﷺ کے بچاؤ کے لیے بے نظیر جرات کا ثبوت دیا۔ جس سے خوش ہوکر آنحضرت ﷺ نے فرمایا، اے سعد! تیرچلا، تجھ پر میرے ماںباپ فداہوں۔ یہ فضیلت کسی اورصحابی کو نصیب نہیں ہوئی۔ جنگ ایران میں انھوں نے شجاعت کے وہ جوہر دکھلائے جن سے اسلامی تاریخ بھرپورہے۔ سارے ایران پر اسلامی پرچم لہرایا۔ رستم ثانی کو میدان کارزار میں بڑی آسانی سے مارلیا۔ جواکیلا ہزار آدمیوں کے مقابلہ پربھاری سمجھا جاتا تھا۔ حضرت سعد ؓ نے اسامہ بن قتادہ کوفی کے حق میں بددعا کی جس نے آپ پرالزامات لگائے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سعد ؓ کی دعا قبول کی اور وہ نتیجہ ہوا جس کا یہاں ذکر موجود ہے۔ معلوم ہوا کہ کسی پرناحق کوئی الزام لگانابہت بڑا گناہ ہے۔ ایسی حالت میں مظلوم کی بددعا سے ڈرنا ایمان کی خاصیت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin Samura (RA): The People of Kufa complained against Sa'd to 'Umar and the latter dismissed him and appointed 'Ammar as their chief . They lodged many complaints against Sa'd and even they alleged that he did not pray properly. 'Umar sent for him and said, "O Aba Ishaq! These people claim that you do not pray properly." Abu Ishaq said, "By Allah, I used to pray with them a prayer similar to that of Allah's Apostle (ﷺ) and I never reduced anything of it. I used to prolong the first two Rakat of 'Isha prayer and shorten the last two Rakat." 'Umar said, "O Aba Ishaq, this was what I thought about you." And then he sent one or more persons with him to Kufa so as to ask the people about him. So they went there and did not leave any mosque without asking about him. All the people praised him till they came to the mosque of the tribe of Bani 'Abs; one of the men called Usama bin Qatada with a surname of Aba Sa'da stood up and said, "As you have put us under an oath; I am bound to tell you that Sa'd never went himself with the army and never distributed (the war booty) equally and never did justice in legal verdicts." (On hearing it) Sa'd said, "I pray to Allah for three things: O Allah! If this slave of yours is a liar and got up for showing off, give him a long life, increase his poverty and put him to trials." (And so it happened). Later on when that person was asked how he was, he used to reply that he was an old man in trial as the result of Sa'd's curse. 'Abdul Malik, the sub narrator, said that he had seen him afterwards and his eyebrows were over-hanging his eyes owing to old age and he used to tease and assault the small girls in the way.