باب:اس بارے میں کہ بچے کا(حدیث) سننا کس عمر میں صحیح ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: At what age may a youth be listened to (i.e. quotation of the Hadith from a boy be acceptable))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
77.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں ایک دن گدھی پر سوار ہو کر آیا۔ اس وقت میں قریب البلوغ تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ منیٰ میں کسی دیوار کو سامنے کیے بغیر نماز پڑھا رہے تھے۔ میں ایک صف کے آگے سے گزرا اور گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود صف میں شامل ہو گیا۔ مجھ پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب بچہ سمجھ داراور ہوشیار ہو جائے تو حامل حدیث ہو سکتا ہے لیکن ادائے حدیث کے لیے اس کا بالغ ہونا شرط ہے۔ امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ تحمل حدیث کے لیے راوی کی عمر کم ازکم پندرہ سال ہونی چاہیےکیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو احد کے دن جنگ میں شریک نہیں ہونے دیا تھا اسی طرح حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی جنگ بدر کے موقع پر واپس کردیا تھا، کیونکہ ان دونوں کی عمریں پندرہ سال سے کم تھیں لیکن امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تحمل حدیث کے لیے سمجھدار اور ہوشیار ہونا تو ضروری ہے لیکن عمر کی قید نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن صحابہ کو جنگ میں شریک نہیں کیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ جنگ میں قوت اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے آپ نے چھوٹی عمر والوں کو واپس کردیا تھا البتہ تحمل حدیث کے لیے طاقت درکار نہیں ہوتی بلکہ اس کا مدار صرف ہوشیاری اورسمجھداری پر ہے۔ سمجھدار بچہ اگر بچپن کی کوئی بات بالغ ہونے کے بعد نقل کرتا ہے تو وہ معتبر ہوگی چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث سے محدثین نے کئی ایک مسائل کا استنباط کیا ہے۔ (فتح الباري: 225/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
76
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
76
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
76
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
76
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
سماع حدیث کے لیے بلوغت شرط نہیں البتہ اداحدیث کے لیے بالغ ہونا ضروری ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں ایک دن گدھی پر سوار ہو کر آیا۔ اس وقت میں قریب البلوغ تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ منیٰ میں کسی دیوار کو سامنے کیے بغیر نماز پڑھا رہے تھے۔ میں ایک صف کے آگے سے گزرا اور گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود صف میں شامل ہو گیا۔ مجھ پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب بچہ سمجھ داراور ہوشیار ہو جائے تو حامل حدیث ہو سکتا ہے لیکن ادائے حدیث کے لیے اس کا بالغ ہونا شرط ہے۔ امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ تحمل حدیث کے لیے راوی کی عمر کم ازکم پندرہ سال ہونی چاہیےکیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو احد کے دن جنگ میں شریک نہیں ہونے دیا تھا اسی طرح حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی جنگ بدر کے موقع پر واپس کردیا تھا، کیونکہ ان دونوں کی عمریں پندرہ سال سے کم تھیں لیکن امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تحمل حدیث کے لیے سمجھدار اور ہوشیار ہونا تو ضروری ہے لیکن عمر کی قید نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن صحابہ کو جنگ میں شریک نہیں کیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ جنگ میں قوت اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے آپ نے چھوٹی عمر والوں کو واپس کردیا تھا البتہ تحمل حدیث کے لیے طاقت درکار نہیں ہوتی بلکہ اس کا مدار صرف ہوشیاری اورسمجھداری پر ہے۔ سمجھدار بچہ اگر بچپن کی کوئی بات بالغ ہونے کے بعد نقل کرتا ہے تو وہ معتبر ہوگی چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث سے محدثین نے کئی ایک مسائل کا استنباط کیا ہے۔ (فتح الباري: 225/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے، وہ عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں ( ایک مرتبہ ) گدھی پر سوار ہو کر چلا، اس زمانے میں، میں بلوغ کے قریب تھا۔ رسول اللہ ﷺ منیٰ میں نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے سامنے دیوار ( کی آڑ ) نہ تھی، تو میں بعض صفوں کے سامنے سے گزرا اور گدھی کو چھوڑ دیا۔ وہ چرنے لگی، جب کہ میں صف میں شامل ہو گیا ( مگر ) کسی نے مجھے اس بات پر ٹوکا نہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): Once I came riding a she-ass and had (just) attained the age of puberty. Allah's Apostle (ﷺ) was offering the prayer at Mina. There was no wall in front of him and I passed in front of some of the row while they were offering their prayers. There I let the she-ass loose to graze and entered the row, and nobody objected to it.