تشریح:
(1) امام بخاری ؒ آمین کی فضیلت بیان کرنے کے لیے ایک ایسی حدیث لائے ہیں جس میں مطلق طور پر آمین کہنے کی فضیلت کا بیان ہے اور اسے حالت نماز کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا، تاہم صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:’’جب تم میں سے کوئی نماز میں آمین کہے۔‘‘ اس روایت کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ مطلق روایت کو مقید پر محمول کیا جائے گا اور اس سے مراد نماز میں آمین کہنے والا ہی بہتر ہے کہ اسے اطلاق پر ہی رکھا جائے۔ علاوہ ازیں صحیح مسلم ہی کی ایک روایت ہے کہ جب کوئی قرآن پڑھنے والا آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:(920)410) اس روایت کے پیش نظر جب کوئی بھی قاری آمین کہے تو سننے والے کےلیے، خواہ وہ نماز میں ہو یا غیر نماز میں آمین کہنا مستحب ہے۔ ممکن ہے کہ قاری سے مراد امام ہی ہو کیونکہ حدیث ایک ہی ہے جو مختلف الفاظ سے بیان ہوئی ہے۔ (فتح الباری:2/345) (2) علامہ ابن منیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہوسکتی ہے کہ ایک چھوٹا سا کلمہ کہنے سے مغفرت مل رہی ہے جس کے ادا کرنے میں کوئی دشواری نہیں۔ (فتح الباري:344/2) آمین کہنے کے متعلق یہ فضیلت ہی کافی ہے کہ مسلمانوں کے اس عمل سے یہودی بہت حسد کرتے ہیں،چنانچہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’یہود نے تمھارے ساتھ کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا جتنا سلام اور آمین کہنے پر کیا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، إقامةالصلوات، حدیث:856) امام ابن خزیمہ نے اس روایت کو بایں الفاظ بیان کیا ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’بلاشبہ یہود ایک حاسد قوم ہے۔وہ ہم سے جتنا حسد سلام اور آمین کہنے پر کرتے ہیں اتنا کسی اور چیز سے نہیں کرتے۔‘‘ (صحیح ابن خزیمة:288/1)