تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ حضرت حذیفہ ؓ نے اس سے پوچھا: تو کرنے عرصے سے اس طرح نماز پڑھ رہا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ چالیس برس سے اسی طرح نماز پڑھ رہا ہوں۔ (فتح الباري:256/2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں رکوع اور سجود کو آرام اور سکون سے ادا کرنا چاہیے۔ ایسا کرنا فرض ہے۔ اس میں کوتاہی کرنا اپنی نماز کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔
(2) بعض حضرات کا کہنا ہے کہ رکوع کی حقیقت جھکنا اور سجدے کی حقیقت پیشانی کو زمین پر رکھنا ہے، اگر کوئی اتنے ہی پر اکتفا کرتا ہے تو اس کی نماز صحیح ہے۔ لیکن یہ موقف احادیث کے خلاف ہے کیونکہ احادیث میں تعدیل ارکان کی بہت تاکید ہے۔ تعدیل ارکان یہ ہے کہ بدن ہئیت طبعی پر پہنچ جائے اور حرکت انتقال، سکون و اطمینان میں تبدیل ہو جائے۔
(3) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے رکوع اور سجود کو ادھورا کرنے والے کے متعلق فرمایا: تو نے نماز نہیں پڑھی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے مسنون طریقے کے خلاف نماز خراب کر کے پڑھنے والے کو فرمایا تھا: ’’جاؤ، نماز دوبارہ پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ (فتح الباري:256/2)
(4) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ تعدیل و اطمینان ضروری ہے، اس کے بغیر فرض کی ادائیگی نہیں ہو گی۔