تشریح:
1۔ ایک حدیث میں ہے کہ جانوروں کی پشت سےمنبر کا کام نہ لو۔ (سنن ابي داؤد، الجھاد، حدیث: 2567) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بحالت سواری وعظ کہنا، فتویٰ دینادرست نہیں۔ دونوں روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ اسے عادت نہیں بنانا چاہیے کہ خواہ مخواہ جانوروں کی پیٹھ پر بیٹھ کر تقریر کی جائے، اس سے بچنا افضل ہے، تاہم ضرورت کے وقت اس کاجواز ہے۔ اگرچہ فتویٰ دینے کے لیے مفتی کا کسی مقام پر اطمینان کے ساتھ بیٹھنا بہتر ہے اور احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے لیکن کھڑے کھڑے یا چلتے پھرتے کسی سائل کومسئلہ بتا دینا بھی جائز ہے، البتہ چلتے پھرتے یا سواری پر بیٹھے ہوئے درس وتدریس کا جواز کشید نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تعلیم و تدریس کی شان فتویٰ وغیرہ سے بالکل الگ ہے۔
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان ثابت کرنے کے لیے جو حدیث پیش کی ہے اس میں دابة(جانور) کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ اس عنوان کی دوسری روایات میں یہ لفظ موجود ہے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1738) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بکثرت ایسا کرتے ہیں کہ غیر مذکور الفاظ کومدنظر رکھتے ہوئے اس سے مسائل کا استخراج کرتے ہیں۔
3۔ یوم نحر میں چار اعمال ہیں: رمی، ذبح، حلق اور طواف زیارت، خلاف ترتیب عمل کی صورت میں نہ کفارہ دینا ضروری ہے اور نہ اخروی نقصان اور گناہ ہی ہے۔ آخرحدیث میں راوی کا بیان ہے کہ تقدیم وتاخیر کے متعلق جس قدر بھی سوالات ہوئے سب کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا کہ جوعمل رہ گیا ہے، اسے اب بجا لاؤ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مکمل بحث کتاب الحج میں آئے گی۔
4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے د و اجزاء ہیں۔(الف)۔وقوف علی الدابة۔ (ب)۔وقوف علی غیر دابة۔ اس حدیث سے دوسرا جز ثابت ہوگیا۔ اس سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مؤقف کا اثبات ہوتا ہے کہ علم کو وقار اور اطمینان سے پڑھانا چاہیے۔ اسی طرح راستہ چلتے ہوئے فتویٰ نہیں دینا چاہیے، لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف ہے کہ اتنی شرائط نہ لگائی جائیں کہ کوئی سائل ہنگامی مسئلہ دریافت ہی نہ کرسکے۔