باب:اس شخص کے بارے میں جو ہاتھ لور سر کے اشارے سے فتویٰ کا جواب دے۔
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: Whoever gave a religious verdict by beckoning or by nodding)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
86.
حضرت ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’آئندہ زمانے میں علم اٹھا لیا جائے گا، جہالت اور فتنے عام ہوں گے اور ہرج زیادہ ہو گا۔‘‘ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ہرج کیا چیز ہے؟ آپ نے اپنے دست مبارک سے اس طرح ترچھا اشارہ کر کے فرمایا، گویا آپ کی مراد قتل تھی۔
تشریح:
شارح کرمانی کہتے ہیں کہ ہرج کے معنی فتنہ وفساد ہیں اور اس سے قتل مراد لینا مجازی طور پر ہے کیونکہ فتنہ وفساد کو قتل وغیرہ لازم ہے۔(شرح الکرماني: 66/2) لیکن یہ ان کا تسامح ہے کیونکہ صحیح بخاری میں ہے کہ حبشہ کی زبان میں ہرج کے معنی قتل ہیں۔ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7065) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو ترچھا کرکے اشارہ فرمایا کیونکہ تلوار جب تک ترچھی نہ کی جائے اس وقت تک کاٹتی نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
85
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
85
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
85
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
85
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
فتویٰ ایک قسم کی تعلیم ہے جس میں وضاحت اور صراحت کی ضرورت ہوتی ہے۔اشارہ اگرچہ تصریح سے بہت کمزور ہے،تاہم بوقت ضرورت اشارہ جائز ہے بشرط یہ کہ اشارہ مفہمہ ہو اور اس سے کسی غلط فہمی کا اندیشہ نہ ہو۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’آئندہ زمانے میں علم اٹھا لیا جائے گا، جہالت اور فتنے عام ہوں گے اور ہرج زیادہ ہو گا۔‘‘ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ہرج کیا چیز ہے؟ آپ نے اپنے دست مبارک سے اس طرح ترچھا اشارہ کر کے فرمایا، گویا آپ کی مراد قتل تھی۔
حدیث حاشیہ:
شارح کرمانی کہتے ہیں کہ ہرج کے معنی فتنہ وفساد ہیں اور اس سے قتل مراد لینا مجازی طور پر ہے کیونکہ فتنہ وفساد کو قتل وغیرہ لازم ہے۔(شرح الکرماني: 66/2) لیکن یہ ان کا تسامح ہے کیونکہ صحیح بخاری میں ہے کہ حبشہ کی زبان میں ہرج کے معنی قتل ہیں۔ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7065) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو ترچھا کرکے اشارہ فرمایا کیونکہ تلوار جب تک ترچھی نہ کی جائے اس وقت تک کاٹتی نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مکی ابن ابراہیم نے بیان کیا، انھیں حنظلہ نے سالم سے خبر دی، انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے سنا، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ (ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب) علم اٹھا لیا جائے گا۔ جہالت اور فتنے پھیل جائیں گے اور ہرج بڑھ جائے گا۔ آپ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! ہرج سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کو حرکت دے کر فرمایا اس طرح، گویا آپ ﷺ نے اس سے قتل مراد لیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "(Religious) knowledge will be taken away (by the death of religious scholars) ignorance (in religion) and afflictions will appear; and Harj will increase." It was asked, "What is Harj, O Allah's Apostle?" He replied by beckoning with his hand indicating "killing." (Fateh-al-Bari Page 192, Vol. 1)