قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ العِلْمِ (بَابُ مَنْ أَجَابَ الفُتْيَا بِإِشَارَةِ اليَدِ وَالرَّأْسِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

86.  حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ فَاطِمَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ، قَالَتْ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ وَهِيَ تُصَلِّي فَقُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ؟ فَأَشَارَتْ إِلَى السَّمَاءِ، فَإِذَا النَّاسُ قِيَامٌ، فَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، قُلْتُ: آيَةٌ؟ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا: أَيْ نَعَمْ، فَقُمْتُ حَتَّى تَجَلَّانِي الغَشْيُ، فَجَعَلْتُ أَصُبُّ عَلَى رَأْسِي المَاءَ، فَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَكُنْ أُرِيتُهُ إِلَّا رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي، حَتَّى الجَنَّةُ وَالنَّارُ، فَأُوحِيَ إِلَيَّ: أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي قُبُورِكُمْ - مِثْلَ أَوْ - قَرِيبَ - لاَ أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ - مِنْ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ، يُقَالُ مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ؟ فَأَمَّا المُؤْمِنُ أَوِ المُوقِنُ - لاَ أَدْرِي بِأَيِّهِمَا قَالَتْ أَسْمَاءُ - فَيَقُولُ: هُوَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالهُدَى، فَأَجَبْنَا وَاتَّبَعْنَا، هُوَ مُحَمَّدٌ ثَلاَثًا، فَيُقَالُ: نَمْ صَالِحًا قَدْ عَلِمْنَا إِنْ كُنْتَ لَمُوقِنًا بِهِ. وَأَمَّا المُنَافِقُ أَوِ المُرْتَابُ - لاَ أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ - فَيَقُولُ: لاَ أَدْرِي، سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ

مترجم:

86.

حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس آئی جبکہ وہ نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے کہا: لوگوں کا کیا حال ہے، یعنی وہ پریشان کیوں ہیں؟ انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا، (یعنی دیکھو سورج کو گرہن لگا ہوا ہے۔) اتنے میں لوگ (نماز کسوف کے لیے) کھڑے ہوئے تو حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا: سبحان اللہ! میں نے پوچھا (یہ گرہن) کیا کوئی (عذاب یا قیامت کی) علامت ہے؟ انہوں نے سر سے اشارہ کیا: ہاں۔ پھر میں بھی (نماز کے لیے) کھڑی ہو گئی حتیٰ کہ مجھ پر غشی طاری ہونے لگی، تو میں نے اپنے سر پر پانی ڈالنا شروع کر دیا۔ پھر (جب نماز ختم ہو چکی تو) نبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی اور فرمایا: ’’جو چیزیں اب تک مجھے نہیں دکھائی گئی تھیں، انہیں میں نے اپنی اس جگہ سے دیکھ لیا ہے حتی کہ جنت اور دوزخ کو بھی۔ اور میری طرف یہ وحی بھیجی گئی کہ قبروں میں تمہاری آزمائش ہو گی، جیسے مسیح دجال یا اس کے قریب قریب فتنے سے آزمائے جاؤ گے۔۔ (راویۂ حدیث فاطمہ نے کہا:) مجھے یاد نہیں کہ حضرت اسماء ؓ نے ان (لفظ مثل اور قریب) میں سے کون سا کلمہ کہا تھا ۔۔ اور کہا جائے گا کہ تجھے اس شخص، یعنی رسول اللہ ﷺ سے کیا واقفیت ہے؟ ایمان دار یا یقین رکھنے والا ۔۔ (فاطمہ نے کہا: ) مجھے یاد نہیں کہ حضرت اسماء ؓ نے ان دونوں (مومن اور موقن) میں سے کون سا کلمہ کہا تھا ۔۔ کہے گا کہ وہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں جو ہمارے پاس کھلی نشانیاں اور ہدایت لے کر آئے تھے۔ ہم نے ان کا کہا مانا اور ان کی پیروی کی۔ وہ محمد ﷺ ہیں۔ تین بار ایسا ہی کہے گا، چنانچہ اس سے کہا جائے گا: تو مزے سے سو جا، بےشک ہم نے جان لیا کہ تو محمد ﷺ پر ایمان رکھتا ہے۔ اور منافق یا شک کرنے والا ۔۔ (فاطمہ نے کہا:) مجھے یاد نہیں کہ حضرت اسماء ؓ نے ان (لفظ منافق اور مُرتاب) میں سے کون سا کلمہ کہا تھا ۔۔ کہے گا: میں کچھ نہیں جانتا، ہاں لوگوں کو جو کہتے سنا، میں بھی وہی کہنے لگا۔‘‘