تشریح:
1۔ اس طویل حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صرف یہ ثابت کیا ہے کہ اشارے کا اعتبار ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوال کا جواب اشارے سے دیا۔ اس کی تردید نہیں کی گئی، لہٰذا مسئلہ ثابت ہو گیا کہ سر اور ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اشارہ سمجھ میں آجائے اور مقصد پر دلالت کر رہا ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اشارے کو فتویٰ کے ساتھ خاص کرکے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ تعلیم وتقریر میں اشارہ کافی نہیں ہوتا، البتہ فتوے کے موقع پر نفی یا اثبات کے لیے اشارہ استعمال کیاجاسکتا ہے۔
2۔ اس حدیث سے عذاب قبر اور اس میں فرشتوں کا سوال کرنا بھی ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر شک کرتا ہے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ ہلکی غشی پڑنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ ( عمدۃ القاری: 137،138/2)
3۔ دجال کا فتنہ یہ ہو گا کہ وہ الوہیت کا دعویٰ کرے گا اور بطور ثبوت قبروں پر جا کر اہل قبور کو کہے گا کہ میرے حکم سے اٹھو تو وہ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ درحقیقت معاملہ یہ ہوگا کہ جو شیاطین اس کے تابع ہوں گے، وہ مردوں کی شکل میں قبروں سے برآمد ہوں گے جن کی صورت مردوں کی ہوگی۔ لوگوں کے لیے یہ زبردست امتحان ہوگا۔ اس سے زیادہ سنگین حالات قبر میں ہوں گے۔ ممتحن خوفناک اور سخت مزاج، پھر تنہائی، ایسے موقع پر بڑے بڑوں کا پتا پانی ہوجائےگا۔ أعاذنا الله منه