تشریح:
(1) اس حدیث سے واضح طور پر جمعہ کی فرضیت معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس میں یہودونصاریٰ پر اس کے فرض ہونے کا ذکر ہے۔ انہوں نے اس سے انحراف کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی فرضیت کے متعلق ہماری رہنمائی فرما دی۔ بعض روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جمعہ کو ہم پر لکھ دیا ہے۔ (فتح الباري:459/2) علامہ ابن منیر ؒ نے لکھا ہے کہ جمعہ فرض عین ہے، فرض کفایہ نہیں کیونکہ اس کی فرضیت کو مطلق طور پر بیان کیا گیا ہے، پھر ان الفاظ کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے: ’’ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس کی ہدایت کر دی اس بنا پر لوگ ہمارے پیچھے ہو گئے۔‘‘ (فتح الباري:457/2) واللہ أعلم۔ (2) دراصل حضرت موسیٰ ؑ نے یہود سے کہا تھا کہ جمعے کا دن باقی ایام سے افضل ہے، لہذا اس کی تعظیم کرو اور اسے عبادت کے لیے وقف کر دو۔ انہوں نے ضد اور عناد کی وجہ سے کہا کہ ہفتے کا دن افضل ہے، ہم اس کی تعظیم کریں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ پھر انہوں نے اس دن کا جو حشر کیا وہ أصحاب السبت کے کردار سے واضح ہے۔ شارح بخاری ابن بطال کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان پر کوئی دن مقرر نہیں فرمایا بلکہ انہیں یہ کہا تھا کہ وہ ہفتے میں کسی ایک دن کی تعظیم کریں اور اس میں عبادت کو بجا لائیں تو انہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ یہود نے ہفتے کے دن کا انتخاب کیا کہ اس دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کی تخلیق سے فارغ ہوا تھا۔ اور نصاریٰ نے اتوار کو پسند کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دن تمام مخلوق کو پیدا کرنے کا آغاز کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے لیے ان کے خود پسند کردہ دنوں (ہفتہ، اتوار) کی تعظیم کو ان پر لازم کر دیا اور اس امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے جمعے کا دن پسند کیا جو ان کے لیے ہر طرح سے بابرکت ثابت ہوا۔ (فتح الباري:458/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ (حجة اللہ البالغة:686/2، طبع مکتبة الکوثر) بہرحال جمعہ کی فرضیت کسی قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ سے پیچھے رہنے والے لوگوں کے متعلق فرمایا: ’’بےشک میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں کسی آدمی کو نماز پڑھانے پر مامور کروں پھر میں ان لوگوں کے گھروں کو جلا ڈالوں جو جمعہ سے پیچھے رہتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم،المساجد،حدیث:1485(652)) نیز آپ نے فرمایا: ’’لوگ نماز جمعہ چھوڑنے سے باز آ جائیں بصورت دیگر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا پھر وہ غافل لوگوں میں شمار ہوں گے۔‘‘ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث:2002(865)) بلکہ رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر فرمایا: ’’نماز جمعہ ہر مسلمان پر باجماعت ادا کرنا حق اور واجب ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1067) اس سلسلے میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ جس شخص نے کسی عذر کے بغیر جمعہ ترک کر دیا اسے چاہیے کہ ایک دینار صدقہ کرے اور اگر ایک دینار موجود نہ ہو تو نصف دینار صدقہ کرے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1053) لیکن یہ حدیث صحیح نہیں۔