تشریح:
1۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناراض ہونے کا ذکر ہے۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ اونٹ کے متعلق سوال کرنا ہی فضول اور بےمحل تھا۔ کیونکہ لقطہ کو اٹھا کر محفوظ کرلینے کا مقصد مال کو ضائع ہونے سے بچانا ہے، لیکن اونٹ کے ضیاع کا اندیشہ نہیں ہے کہ اسے حفاظت کے لیے پکڑا جائے۔ اونٹ بھوک، پیاس اور تھکن کی وجہ سے تو مرنہیں سکتا۔ اس کے ساتھ مشکیزہ ہے کئی دن تک پانی پیے بغیر گزارہ کر سکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی گردن اتنی اونچی بنائی ہے کہ اونچے درخت کے پتے بھی کھا سکتا ہے۔ اسے چلنے میں تھکن نہیں ہوتی کیونکہ اس کے پاؤں میں جوتا ہے۔ طاقتور اتنا ہے کہ کسی جانور کا لقمہ نہیں بن سکتا۔ ایسے حالات میں اسے پکڑنے کا کیا فائدہ؟ اگر سائل نے تدبر سے کام لیا ہوتا تو اس کے متعلق سوال نہ کرتا، اس لیے کہ اس کا مالک اسے ڈھونڈتے ہوئے خود اس تک پہنچ جائےگا۔ ہاں! اگراونٹ ایسی جگہ نظر آئے جہاں ڈاکو یا چوررہتے ہوں یااس مقام پر خونخوار درندے ہوں تو ایسی صورت میں اندیشہ ہے کہ اگر اسے پکڑا نہ گیا توکوئی خونخوار درندہ پھاڑ کھائے گا یا کسی شرپسند کی بھینٹ چڑھ جائے گا اورمالک اس سے محروم ہوجائے گا، تو ایسے حالات میں اسے پکڑ لینا چاہیے۔ اونٹ کے متعلق آپ کا جواب زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماحول کے پیش نظر تھا مگرآج کل ماحول بہت بگڑا ہوا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شاگردوں کے نامناسب سوال کرنے پر استاد کی ناراضی بجا تسلیم کی جائے گی، اس لیے شاگردوں کو سوال کرنے سے پہلے خود سوال کی اہمیت پر غور کرلینا چاہیے۔
2۔ گرے پڑے سامان کو اٹھا کر بعد از تشہیر اس سے فائدہ اٹھانے کی دوصورتیں ہیں۔(الف)۔اگر اٹھانے والا مال دار ہے تو کسی نادار کو صدقے کے طور پر دے کر ثواب کمائے۔(ب)۔اگر خود غریب ہے تو مالک کی طرف سے اسے خود پر بطور صدقہ صرف کرے۔ دونوں صورتوں میں نیت یہ ہو کہ مالک کے آنے پر اگروہ صدقہ منظور نہ کرے تو مطالبے پر اس کی قیمت ادا کردوں گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ گری پڑی چیز کو اٹھانے والا اس کا مالک نہیں بن جاتا بلکہ مالک کی طرف سے اس مال کا امین ہوجاتا ہے۔ اورامانت کااصول یہ ہے کہ مالک کے مطالبے پر اس کا واپس کرنا ضروری ہے۔ اس کے متعلق دیگر مسائل کتاب اللقطہ میں بیان کیے جائیں گے۔