صحیح بخاری
3. کتاب: علم کے بیان میں
27. باب:اس بیان میں کہ استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے
صحيح البخاري
3. كتاب العلم
27. بَابُ الغَضَبِ فِي المَوْعِظَةِ وَالتَّعْلِيمِ، إِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ
Sahi-Bukhari
3. Knowledge
27. Chapter: To be furious while preaching or teaching if one sees what one hates
باب:اس بیان میں کہ استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: To be furious while preaching or teaching if one sees what one hates)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
91.
حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے لیے نماز باجماعت پڑھنا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ فلاں صاحب نماز بہت لمبی پڑھاتے ہیں۔ (ابومسعود انصاری ؓ کہتے ہیں:) میں نے نبی ﷺ کو نصیحت کے وقت اس دن سے زیادہ کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔ آپ نے فرمایا: ’’لوگو! تم دین سے نفرت دلانے والے ہو، دیکھو جو کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے، اسے چاہیے کہ تخفیف کرے کیونکہ ان (مقتدیوں) میں بیمار، ناتواں اور صاحبِ حاجت بھی ہوتے ہیں۔‘‘
تشریح:
1۔ اسلامی تعلیمات میں غصے، ناراضی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا کیونکہ اس سے نفرت کےجذبات پروان چڑھتے ہیں اور اخوت ومودت کی فضا قائم نہیں رہتی لیکن استاد کا غصہ مختلف حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ استاد کا مقصود تعلیم دینا ہوتا ہے تو اس میں بعض دفعہ سختی کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے استاد کا غصہ مقصد تعلیم کے خلاف نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان احادیث کے پیش نظر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ تعلیم کے موقع پر اگرضرورت ہوتو غصے سے بھی کام لیا جا سکتا ہے بلکہ بعض اوقات مستحسن ہے، مثلاً: کوئی طالب علم غیر حاضری کرتا ہے یا گستاخی اور بے ادبی کا ارتکاب کرتا ہے یا حاضری کے باوجود اسباق میں توجہ نہیں دیتا تو استاد کوڈانٹنے اور غصے ہونے کا حق ہے شفقت ومہربانی اپنی جگہ مطلوب ہے اورغصے کا اظہار اپنے محل پر۔ 2۔ اصلاح معاشرہ کے لیے طریق نبوی یہ ہے کہ وعظ وارشاد میں کسی خاص شخص کا نام لے کر اسے نشانہ نہ بنایاجائے بلکہ ایک اصولی بات کہہ دی جائے جس سے مقصد بھی حاصل ہوجائے اور مخاطب کو شرمندگی بھی نہ ہو، یا کسی وقت الگ اسے غلطی پر تنبیہ کردی جائے کیونکہ بھرے مجمع میں کسی کو نشانہ بنانے سے بعض اوقات وہ ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آتا ہے۔ 3۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ائمہ مساجد کواپنے مقتدی حضرات کاخیال رکھنا چاہیے کیونکہ امام کا اس قدر لمبی قراءت کرنا جس میں بیماروں، کمزوروں اور ضرورت مندوں کا لحاظ نہ ہو، شان امامت اور موضوع امامت کے خلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے موقع پر بہت سختی سے نوٹس لیا اور فرمایا کہ تم لوگوں کونماز باجماعت سے نفرت دلانے والے ہو۔ 4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں وعظ وتعلیم کے مواقع پر غصہ کرنے کا ذکر کیا ہے جس کامطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ فیصلہ کرتے وقت غضبناک ہونا جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جج کو بحالت غصہ فیصلہ کرنے سے منع فرمایا ہے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحالت غصہ بھی فتویٰ دینے یا فیصلہ کرنے کے مجاز تھے کیونکہ یہ آپ کاخاصہ تھا۔ آپ کسی حالت میں بھی حق سےانحراف نہیں فرماتے تھے۔ ( صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 7160، وفتح الباري: 247/1) 5۔ اس حدیث میں شکایت کنندہ نے کہا: میرے لیے نماز باجماعت پڑھنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نماز باجماعت کے قریب نہیں جاتا بلکہ بعض اوقات دانستہ اس سے دیر کرتا ہوں کیونکہ جماعت میں قراءت بہت طویل ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض اس لیے ہوئے کہ شاید آپ پہلے بھی اس سے منع فرماچکے تھے۔ (فتح الباري: 246/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
90
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
90
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
90
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
90
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے لیے نماز باجماعت پڑھنا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ فلاں صاحب نماز بہت لمبی پڑھاتے ہیں۔ (ابومسعود انصاری ؓ کہتے ہیں:) میں نے نبی ﷺ کو نصیحت کے وقت اس دن سے زیادہ کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔ آپ نے فرمایا: ’’لوگو! تم دین سے نفرت دلانے والے ہو، دیکھو جو کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے، اسے چاہیے کہ تخفیف کرے کیونکہ ان (مقتدیوں) میں بیمار، ناتواں اور صاحبِ حاجت بھی ہوتے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اسلامی تعلیمات میں غصے، ناراضی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا کیونکہ اس سے نفرت کےجذبات پروان چڑھتے ہیں اور اخوت ومودت کی فضا قائم نہیں رہتی لیکن استاد کا غصہ مختلف حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ استاد کا مقصود تعلیم دینا ہوتا ہے تو اس میں بعض دفعہ سختی کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے استاد کا غصہ مقصد تعلیم کے خلاف نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان احادیث کے پیش نظر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ تعلیم کے موقع پر اگرضرورت ہوتو غصے سے بھی کام لیا جا سکتا ہے بلکہ بعض اوقات مستحسن ہے، مثلاً: کوئی طالب علم غیر حاضری کرتا ہے یا گستاخی اور بے ادبی کا ارتکاب کرتا ہے یا حاضری کے باوجود اسباق میں توجہ نہیں دیتا تو استاد کوڈانٹنے اور غصے ہونے کا حق ہے شفقت ومہربانی اپنی جگہ مطلوب ہے اورغصے کا اظہار اپنے محل پر۔ 2۔ اصلاح معاشرہ کے لیے طریق نبوی یہ ہے کہ وعظ وارشاد میں کسی خاص شخص کا نام لے کر اسے نشانہ نہ بنایاجائے بلکہ ایک اصولی بات کہہ دی جائے جس سے مقصد بھی حاصل ہوجائے اور مخاطب کو شرمندگی بھی نہ ہو، یا کسی وقت الگ اسے غلطی پر تنبیہ کردی جائے کیونکہ بھرے مجمع میں کسی کو نشانہ بنانے سے بعض اوقات وہ ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آتا ہے۔ 3۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ائمہ مساجد کواپنے مقتدی حضرات کاخیال رکھنا چاہیے کیونکہ امام کا اس قدر لمبی قراءت کرنا جس میں بیماروں، کمزوروں اور ضرورت مندوں کا لحاظ نہ ہو، شان امامت اور موضوع امامت کے خلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے موقع پر بہت سختی سے نوٹس لیا اور فرمایا کہ تم لوگوں کونماز باجماعت سے نفرت دلانے والے ہو۔ 4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں وعظ وتعلیم کے مواقع پر غصہ کرنے کا ذکر کیا ہے جس کامطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ فیصلہ کرتے وقت غضبناک ہونا جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جج کو بحالت غصہ فیصلہ کرنے سے منع فرمایا ہے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحالت غصہ بھی فتویٰ دینے یا فیصلہ کرنے کے مجاز تھے کیونکہ یہ آپ کاخاصہ تھا۔ آپ کسی حالت میں بھی حق سےانحراف نہیں فرماتے تھے۔ ( صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 7160، وفتح الباري: 247/1) 5۔ اس حدیث میں شکایت کنندہ نے کہا: میرے لیے نماز باجماعت پڑھنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نماز باجماعت کے قریب نہیں جاتا بلکہ بعض اوقات دانستہ اس سے دیر کرتا ہوں کیونکہ جماعت میں قراءت بہت طویل ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض اس لیے ہوئے کہ شاید آپ پہلے بھی اس سے منع فرماچکے تھے۔ (فتح الباري: 246/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا انھیں سفیان نے ابوخالد سے خبر دی، وہ قیس بن ابی حازم سے بیان کرتے ہیں، وہ ابومسعود انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص (حزم بن ابی کعب) نے (رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آ کر) عرض کیا۔ یا رسول اللہ! فلاں شخص (معاذ بن جبل) لمبی نماز پڑھاتے ہیں اس لیے میں (جماعت کی) نماز میں شریک نہیں ہو سکتا (کیونکہ میں دن بھر اونٹ چرانے کی وجہ سے رات کو تھک کر چکنا چور ہو جاتا ہوں اور طویل قرأت سننے کی طاقت نہیں رکھتا) ( ابومسعود راوی کہتے ہیں) کہ اس دن سے زیادہ میں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو وعظ کے دوران اتنا غضب ناک نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے لوگو! تم (ایسی شدت اختیار کر کے لوگوں کو دین سے) نفرت دلانے لگے ہو۔ (سن لو) جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ ہلکی پڑھائے، کیونکہ ان میں بیمار، کمزور اور حاجت والے (سب ہی قسم کے لوگ) ہوتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
غصہ کا سبب یہ کہ آپ پہلے بھی منع کرچکے ہوں گے دوسرے ایسا کرنے سے ڈر تھا کہ کہیں لوگ تھک ہار کر اس دین سے نفرت نہ کرنے لگ جائیں۔ یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Mas'ud Al-Ansari (RA): Once a man said to Allah's Apostle (ﷺ) "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I may not attend the (compulsory congregational) prayer because so and so (the Imam) prolongs the prayer when he leads us for it. The narrator added: "I never saw the Prophet (ﷺ) more furious in giving advice than he was on that day. The Prophet (ﷺ) said, "O people! Some of you make others dislike good deeds (the prayers). So whoever leads the people in prayer should shorten it because among them there are the sick the weak and the needy (having some jobs to do)."