تشریح:
1۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بعض لوگ کسی اور کا بیٹا کہا کرتے تھے، اس لیے انہوں نے تسلی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقیقت حال کی وضاحت فرمادی۔ اس طرح مجلس میں بہت سے بے تکے سوالات ہوئے جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ بڑھنا شروع ہوگیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے دو چیزیں اختیار کیں۔ ایک کا تعلق قول سے ہے اور دوسری کافعل سے: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ کی ربوبیت، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور اسلام کی حقانیت کا اقرار کیا اور عملاً یہ کیا کہ دوزانو بیٹھنے کی نشست اختیار فرمائی تاکہ اس عاجزانہ اورمؤدبانہ طریقے سے آپ کا غصہ فرو ہو۔ اس طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔
2۔ دوزانو بیٹھنا تشہد بیٹھنے کی کیفیت ہے۔ شاید کوئی غیر نماز میں اس طرح بیٹھنے کو ناجائز کہہ دے، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بتایا کہ اس طرح بیٹھنا نہ صرف جائز بلکہ پسندیدہ بھی ہے کیونکہ اس میں تواضع ہے، نیز اس طرح بیٹھنا استاد کی توجہات کو بھی کھینچتا ہے، اس لیے تعلیم حاصل کرنے کے لیے یہی نشست موزوں اور مناسب ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شاگرد کو اپنے استاد کا احترام ہمہ وقت ملحوظ رکھنا چاہیے کیونکہ مشہور مقولہ ہے: ((با ادب بانصیب، بے ادب بے نصیب))