قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: کِتَابُ صَلاَةِ الخَوْفِ (بَابُ صَلاَةِ الخَوْفِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ الى قوله عَذَابًا مُهِينًا} [النساء:101 -102]

942. حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ سَأَلْتُهُ هَلْ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي صَلَاةَ الْخَوْفِ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ نَجْدٍ فَوَازَيْنَا الْعَدُوَّ فَصَافَفْنَا لَهُمْ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي لَنَا فَقَامَتْ طَائِفَةٌ مَعَهُ تُصَلِّي وَأَقْبَلَتْ طَائِفَةٌ عَلَى الْعَدُوِّ وَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْ مَعَهُ وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ انْصَرَفُوا مَكَانَ الطَّائِفَةِ الَّتِي لَمْ تُصَلِّ فَجَاءُوا فَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِمْ رَكْعَةً وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ فَقَامَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ فَرَكَعَ لِنَفْسِهِ رَكْعَةً وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏اور اللہ پاک نے ( سورۃ نساء) میں فرمایا اور جب تم مسافر ہو تو تم پر گناہ نہیں اگر تم نماز کم کردو۔ فرمان الٰہی (عذابامھینا ) تک تشریح :  حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی روش کے مطابق صلوۃ الخوف کے اثبات کے لیے آیت قرآنی کو نقل فرما کر اشارہ کیا کہ آگے آنے والی احادیث کواس آیت کی تفسیر سمجھنا چاہیے۔خوف کی نماز اس کو کہتے ہیں جو حالت جہاد میں ادا کی جاتی ہے جب اسلام اور دشمنان اسلام کی جنگ ہو رہی ہو اور فرض نماز کا وقت آجائے اور خوف ہو کہ اگر ہم نماز میں کھڑے ہوں گے تو دشمن پیچھے حملہ آور ہو جائے گا ایسی حالت میں خوف کی نماز ادا کرناجائز ہے اوراس کا جواز کتاب وسنت ہر دوسے ثابت ہے۔اگر مقابلہ کا وقت ہو تو اس کی صورت یہ ہے کہ فوج دوحصے ہو جائے مجاہدین کا ہر حصہ نماز میں امام کے ساتھ شریک ہو اور آدھی نماز جدا پڑھ لے۔ جب تک دوسری جماعت دشمن کے مقابلے پر رہے اور اس حالت نماز میں آمد ورفت معاف ہے اور ہتھیار اور زرہ اور سپر ساتھ رکھیں اور اگر اتنی بھی فرصت نہ ہو تو جماعت موقوف کریں تنہا پڑھ لیں، پیادہ پڑھیں یا سوار یا شدت جنگ ہو تو اشاروں سے پڑھ لیں اگر یہ بھی فرصت نہ ملے تو توقف کریں جب تک جنگ ختم ہو۔حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:فرض اللہ الصلوۃ علی نبیکم فی الحضر اربعا وفی السفر رکعتین وفی الخوف رکعۃ ( رواہ احمد ومسلم وابوداؤد والنسائی ) یعنی اللہ نے ہمارے نبی ﷺپر حضر میں چار رکعت نماز فرض کی اور سفر میں دورکعت اور خوف میں صرف ایک رکعت۔حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے منعقدہ باب میں وارد پوری آیات یہ ہیں وَاِذَا ضَرَبتُم فِی الاَرضِ فَلَیسَ عَلَیکُم جُنَاح اَن تَقصُِرُوا مِنَ الصَّلٰوۃِ اِن خِفتُم اَن یَفتِنَکُم الَّذِینَ کَفَرُوا اِنَّ الکٰفِرِینَ کَانُوا لَکُم عَدُوًّا مُّبِیناً وَاِذَا کُنتَ فِیھِم فَاَقَمتَ لَھُم الصَّلوٰۃَ ( النساء:101-102 ) یعنی جب تم زمین میں سفر کرنے کو جاؤ تو تمہیں نماز کا قصر کرنا جائز ہے اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تم کوستائیں گے۔ واقعی کافر لوگ تمہارے صریح دشمن ہیں اور جب تو اے نبی!ان میں ہو اور نماز خوف پڑھانے لگے تو چاہیے کہ ان حاضرین میں سے ایک جماعت تیرے ساتھ کھڑی ہو جائے اور اپنے ہتھیاربھی ساتھ لیے رہیں پھر جب پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ کر چکیں تو تم سے پہلی جماعت پیچھے چلی جائے اور دوسری جماعت والے جنہوں نے ابھی نماز نہیں پڑھی وہ آجائیں اور تیرے ساتھ ایک نماز پڑھ لیں اور اپنا بچاؤ اور ہتھیار ساتھ ہی رکھیں۔ کافروں کی یہ دلی آرزو ہے کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہو جاؤ تو تم پر وہ ایک ہی دفعہ ٹوٹ پڑیں۔ آخر آیت تک۔  

نماز خوف حدیثوں میں پانچ چھ طرح سے آئی ہے جس وقت جیسا موقع ملے پڑھ لینی چاہیے۔ آگے حدیثوں میں ان صورتوں کا بیان آرہاہے۔ مولانا وحید الزماں فرماتے ہیں کہ اکثر علماءکے نزدیک یہ آیت قصر سفر کے بارے میں ہے بعضوں نے کہا خوف کی نماز کے باب میں ہے، امام بخاری نے اس کو اختیار کیا ہے۔ چنانچہ عبد اللہ بن عمر سے پوچھا گیا کہ ہم خوف کا قصر تو اللہ کی کتاب میں پاتے ہیں مگر سفر کا قصر نہیں پاتے۔ انہوں نے کہا ہم نے اپنے پیغمبر ﷺکو جیسا کرتے دیکھا ویسا ہی ہم بھی کرتے ہیں یعنی گویا یہ حکم اللہ کی کتاب میں نہ سہی پر حدیث میں تو ہے اور حدیث بھی قرآن شریف کی طرح واجب العمل ہے۔

حضرت ابن قیم نے زاد المعاد میں نماز خوف کی جملہ احادیث کا تجزیہ کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ان سے نماز چھ طریقہ کے ساتھ ادا کرنا معلوم ہوتا ہے۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ جس طریق پر چاہیں اور جیسا موقع ہو یہ نماز اس طرح پڑھی جا سکتی ہے۔

کچھ حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ نماز خوف آنحضرت ﷜کے بعد منسوخ ہو گئی مگر یہ غلط ہے۔ جمہور علماءاسلام کا اس کی مشروعیت پر اتفاق ہے۔آپ کے بعد بھی صحابہ مجاہدین نے کتنی مرتبہ میدان جنگ میں یہ نماز ادا کی ہے۔شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں: فان الصحابۃ اجمعوا علی صلوۃ الخوف فروی ان علیا صلی صلوۃ الخوف لیلۃ الھریر وصلاھا ابو موسیٰ الاشعری باصبھان باصحابہ روی ان سعید بن العاص کان امیرا علی الجیش بطبرستان فقال ایکم صلی مع رسول اللہ ﷺ صلوۃ الخوف فقال حذیفۃ انا فقدمہ فصلی بھم قال الزیلعی دلیل الجمھور وجوب الاتباع والتاسی بالنبی ﷺوقولہ صلوا کما رایتمونی اصلی الخ ( مرعاۃ، ج:2ص:318 ) یعنی صلوۃ خوف پر صحابہ کا اجماع ہے جیسا کہ مروی ہے کہ حضرت علی ؓنے لیلۃ الہریر میں خوف کی نماز ادا کی اور ابو موسیٰ اشعری نے اصفہان کی جنگ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ خوف کی نماز پڑھی اور حضرت سعید بن عاص نے جو جنگ طبرستان میں امیر لشکر تھے، فوجیوں سے کہا کہ تم میں کوئی ایسا بزرگ ہے جس نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ خوف کی نماز ادا کی ہو۔ چنانچہ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا کہ ہاں میں موجود ہوں۔ پس ان ہی کو آگے بڑھا کر یہ نماز ادا کی گئی۔ زیلعی نے کہا کہ صلوۃ خوف پر جمہور کی دلیل یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی اتباع اور اقتداءواجب ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ جیسے تم نے مجھ کو نماز ادا کرتے دیکھا ہے ویسے ہی تم بھی ادا کرو پس ان لوگوں کا قول غلط ہے جو صلوۃ خوف کو اب منسوخ کہتے ہیں۔

 

مطلب یہ ہے کہ اول سب نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ نماز کی نیت باندھی، دو صف ہو گئے۔ ایک صف تو آنحضرت ﷺ کے متصل، دوسری صف ان کے پیچھے اور یہ اس حالت میں ہے جب دشمن قبلے کی جانب ہو اور سب کا منہ قبلے ہی کی جانب ہو۔ خیر اب پہلی صف والوں نے آپ کے ساتھ رکوع اور سجدہ کیا اور دوسری صف والے کھڑے کھڑے ان کی حفاظت کر تے رہے، اس کے بعد پہلی صف والے رکوع اور سجدہ کر کے دوسری صف والوں کی جگہ پر حفاظت کے لیے کھڑے رہے اور دوسری صف والے ان کی جگہ پر آکر رکوع اور سجدہ میں گئے۔ رکوع اور سجدہ کر کے قیام میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ شریک ہو گئے اور دوسری رکعت کا رکوع اور سجدہ آنحضرت ﷺ کے ہمراہ کیا جب آپ التحیات پڑھنے لگے تو پہلی صف والے رکوع اور سجدہ میں گئے پھر سب نے ایک ساتھ سلام پھیرا جیسے ایک ساتھ نیت باندھی تھی۔ ( شرح وحیدی )

942.

امام زہری ؓ سے (راوی حدیث) شعیب نے پوچھا: کیا نبی ﷺ نے نماز خوف پڑھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: مجھے سالم نے خبر دی کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: میں ایک دفعہ نبی ﷺ کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کے لیے گیا۔ جب ہم دشمن کے سامنے صف آراء ہوئے تو رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ ایک گروہ تو آپ کے ساتھ کھڑا ہوا اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے میں ڈٹا رہا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہمراہ گروہ کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کیے۔ اس کے بعد یہ لوگ اس گروہ کی جگہ چلے گئے جس نے نماز نہیں پڑھی تھی۔ جب وہ آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ بھی ایک رکوع اور دو سجدے ادا کیے اور سلام پھیر دیا۔ پھر ان میں سے ہر آدمی کھڑا ہوا اور ایک رکوع اور دو سجدے اپنے اپنے طور پر کیے۔