تشریح:
(1) بعض حضرات نے مذکورہ حدیث سے عورتوں کے لیے نماز عید باہر جا کر پڑھنے کا وجوب اخذ کیا ہے لیکن یہ وجوب محل نظر ہے کیونکہ اس میں تو وہ عورتیں بھی شامل ہیں جنہیں نماز پڑھنے کا مکلف قرار نہیں دیا گیا، البتہ عورتوں کے لیے عیدگاہ جانے کا استحباب ضرور ثابت ہوتا ہے، خواہ وہ عورتیں جوان ہوں یا بوڑھی، خوبصورت ہوں یا اس کے برعکس، بہرحال انہیں عیدگاہ جانے کی تاکید ہے۔
(2) امام طحاوی ؒ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آغاز اسلام میں جوان پردہ نشین عورتوں کو نکلنے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ مسلمانوں کی تعداد زیادہ معلوم ہو اور دشمنوں پر رعب قائم ہو کیونکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی موقف پر یہ اعتراض ہوا کہ نسخ ایسے احتمالات سے ثابت نہیں ہوتا، نیز حضرت ام عطیہ ؓ کا فتویٰ بھی اس موقف کے خلاف ہے جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد دیا ہے۔ دشمنوں پر رعب کی بات بھی عجیب ہے، اس لیے کہ عورتوں سے مدد لینا اور بوقت جنگ ان کی وجہ سے اپنی کثرت کا اظہار کرنا بجائے خود اپنی کمزوری بتانا ہے، لہذا بہتر ہے کہ جوان عورتوں کا عیدگاہ جانا اس وقت پر محمول ہو جب حالات پرامن ہوں، یعنی ان کے وہاں جانے سے نہ وہ خود کسی فتنے میں مبتلا ہوں اور نہ کوئی مرد ان کی وجہ سے فتنے میں پڑے، نیز راستے میں اور جمع ہونے کے مقامات میں مردوں کے ساتھ ان کا اختلاط نہ ہو، ایسے حالات میں ان کا عیدگاہ جانا پسندیدہ عمل ہے۔ (فتح الباري:207-206/2)