قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّهَجُّدِ (بَابُ صَلاَةِ النَّوَافِلِ جَمَاعَةً)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: ذَكَرَهُ أَنَسٌ، وَعَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّﷺ

1199.  فَزَعَمَ مَحْمُودٌ أَنَّهُ سَمِعَ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ الْأَنْصارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي بِبَنِي سَالِمٍ وَكَانَ يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ وَادٍ إِذَا جَاءَتْ الْأَمْطَارُ فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ قِبَلَ مَسْجِدِهِمْ فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَهُ إِنِّي أَنْكَرْتُ بَصَرِي وَإِنَّ الْوَادِيَ الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَ قَوْمِي يَسِيلُ إِذَا جَاءَتْ الْأَمْطَارُ فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ فَوَدِدْتُ أَنَّكَ تَأْتِي فَتُصَلِّي مِنْ بَيْتِي مَكَانًا أَتَّخِذُهُ مُصَلًّى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَفْعَلُ فَغَدَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ مَا اشْتَدَّ النَّهَارُ فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنْتُ لَهُ فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى قَالَ أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي أُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ فِيهِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ وَصَفَفْنَا وَرَاءَهُ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ فَحَبَسْتُهُ عَلَى خَزِيرٍ يُصْنَعُ لَهُ فَسَمِعَ أَهْلُ الدَّارِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي فَثَابَ رِجَالٌ مِنْهُمْ حَتَّى كَثُرَ الرِّجَالُ فِي الْبَيْتِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ مَا فَعَلَ مَالِكٌ لَا أَرَاهُ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ ذَاكَ مُنَافِقٌ لَا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُلْ ذَاكَ أَلَا تَرَاهُ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ أَمَّا نَحْنُ فَوَاللَّهِ لَا نَرَى وُدَّهُ وَلَا حَدِيثَهُ إِلَّا إِلَى الْمُنَافِقِينَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ قَالَ مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ فَحَدَّثْتُهَا قَوْمًا فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَتِهِ الَّتِي تُوُفِّيَ فِيهَا وَيَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَلَيْهِمْ بِأَرْضِ الرُّومِ فَأَنْكَرَهَا عَلَيَّ أَبُو أَيُّوبَ قَالَ وَاللَّهِ مَا أَظُنُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا قُلْتَ قَطُّ فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَيَّ فَجَعَلْتُ لِلَّهِ عَلَيَّ إِنْ سَلَّمَنِي حَتَّى أَقْفُلَ مِنْ غَزْوَتِي أَنْ أَسْأَلَ عَنْهَا عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنْ وَجَدْتُهُ حَيًّا فِي مَسْجِدِ قَوْمِهِ فَقَفَلْتُ فَأَهْلَلْتُ بِحَجَّةٍ أَوْ بِعُمْرَةٍ ثُمَّ سِرْتُ حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَأَتَيْتُ بَنِي سَالِمٍ فَإِذَا عِتْبَانُ شَيْخٌ أَعْمَى يُصَلِّي لِقَوْمِهِ فَلَمَّا سَلَّمَ مِنْ الصَّلَاةِ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَأَخْبَرْتُهُ مَنْ أَنَا ثُمَّ سَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ الْحَدِيثِ فَحَدَّثَنِيهِ كَمَا حَدَّثَنِيهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ اس کا ذکر انس اور ؓ نے نبی کریمﷺسے کیا ہے۔

1199.

حضرت محمود بن ربیع نے فرمایا کہ میں نے حضرت عتبان بن مالک انصاری ؓ سے سنا۔ اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جو نبی ﷺ کے ہمراہ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ حضرت عتبان ؓ نے فرمایا: میں قبیلہ بنو سالم میں اپنی قوم کو نماز پڑھایا کرتا تھا۔ میرے اور اس قبیلے کے درمیان ایک وادی حائل تھی۔ جب بارشیں ہوتیں تو اسے عبور کر کے ان کی مسجد تک پہنچنا میرے لیے دشوار ہو جاتا، اس لیے میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری نظر کمزور ہو چکی ہے اور یہ وادی جو میرے اور میری قوم کے درمیان بہتی ہے جب بارشیں ہوں تو اسے عبور کرنا میرے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ تشریف لائیں اور میرے گھر میں کسی جگہ پر نماز پڑھیں تاکہ میں اسے (ہمیشہ کے لیے) جائے نماز بنا لوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں عنقریب آؤں گا۔‘‘ چنانچہ ایک دن جب سورج چڑھ آیا تو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر صدیق ؓ میرے پاس تشریف لائے۔ رسول اللہ ﷺ نے اندر آنے کی اجازت طلب فرمائی۔ میں نے آپ کو اجازت دی تو آپ نے بیٹھنے سے پہلے فرمایا: ’’آپ اپنے گھر کے کس حصے میں ہمارا نماز پڑھنا پسند کرتے ہیں؟‘‘ میں نے آپ کے لیے ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا جہاں میں پسند کرتا تھا کہ وہاں نماز ادا کی جائے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں کھڑے ہو کر اللہ اکبر کہا۔ ہم نے بھی آپ کے پیچھے صفیں درست کر لیں۔ آپ نے دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ ہم نے بھی آپ کے سلام پھیرنے پر سلام پھیر دیا۔ پھر میں نے موٹے آٹے اور گوشت سے تیار کردہ کھانا پیش کیا جو آپ ہی کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ جب اہل محلہ کو پتہ چلا کہ رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں تشریف فر ہیں تو وہ پے درپے اکٹھے ہونا شروع ہو گئے حتی کہ بہت سے لوگ میرے گھر میں جمع ہو گئے۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا: مالک (ابن دخشن) ؓ کو کیا ہوا؟ وہ ہمیں یہاں نظر نہیں آ رہا؟ ان میں سے ایک دوسرے شخص نے کہا: وہ منافق ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت نہیں رکھتا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسا مت کہو۔ کیا تم اسے نہیں دیکھتے ہو کہ وہ لا إله إلا الله کہتا ہے اور اس کا کلمہ پڑھنے کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی ہے۔‘‘ اس شخص نے کہا: (ویسے تو) اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں لیکن اللہ کی قسم! ہم تو اس کی دوستی اور کلام و سلام منافقین کے ساتھ ہی دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو جہنم پر حرام کر دیا ہے جو اللہ کی رضا کے لیے کلمہ طیبہ پڑھتا ہے۔‘‘ حضرت محمود بن ربیع ؓ نے فرمایا: میں نے یہ حدیث چند لوگوں سے بیان کی جن میں رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت ابوایوب انصاری ؓ بھی تھے۔ یہ واقعہ اس غزوے میں پیش آیا جس میں حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کی شہادت ہوئی اور رومی سرزمین (قسطنطنیہ) میں یزید بن معاویہ امیر لشکر تھے۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ نے اس واقعے کا صاف انکار کر دیا اور فرمایا: اللہ کی قسم! میرا رسول اللہ ﷺ کے متعلق ہرگز خیال نہیں کہ آپ نے ایسے کلمات فرمائے ہوں گے جو تم نے آپ ﷺ کی طرف منسوب کیے ہیں۔ مجھ پر ان کا انکار بہت گراں گزرا، اس لیے میں نے اپنے اوپر یہ لازم کر لیا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس غزوے سے واپسی تک مجھے صحیح سالم رکھا تو میں اس کے متعلق حضرت عتبان بن مالک ؓ سے ضرور دریافت کروں گا بشرطیکہ میں اسے اس قوم کی مسجد میں بقید حیات پاؤں، چنانچہ میں جب اس غزوے سے واپس لوٹا تو میں نے حج یا عمرے کا احرام باندھا اور وہاں سے روانہ ہوا۔ بالآخر جب میں مدینہ منورہ پہنچا تو قبیلہ بنو سالم کا رخ کیا۔ میں نے وہاں حضرت عتبان بن مالک ؓ کو دیکھا کہ وہ نابینے ہو چکے ہیں اور اپنی قوم کو نماز پڑھا رہے ہیں۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے انہیں سلام کیا اور اپنا تعارف کرایا۔ پھر میں نے ان سے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے واقعہ اسی طرح بیان کیا جس طرح پہلی مرتبہ بیان کیا تھا۔