باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تفصیل کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جانتا ہوں۔
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: The statement of the Prophet (saws): "I know Allah Ta'ala better, than all of you do.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اس بات کا ثبوت کہ «معرفت» دل کا فعل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ”لیکن (اللہ) گرفت کرے گا اس پر جو تمہارے دلوں نے کیا ہو گا۔“
20.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب صحابہ کرام ؓ کو حکم دیتے تو انھی کاموں کا حکم دیتے جن کو وہ بآسانی کر سکتے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارا حال آپ جیسا نہیں ہے۔ اللہ نے آپ کی اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمایا ہے۔ یہ سن کر آپ ﷺ اس قدر ناراض ہوئے کہ آپ کے چہرہ مبارک پر غصے کا اثر ظاہر ہوا، پھر آپ نے فرمایا: ’’میں تم سب سے زیادہ پرہیزگار اور اللہ کو جاننے والا ہوں۔‘‘
تشریح:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے ناراض ہوئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ’’آسان کاموں‘‘ کو رفع درجات اور غفران ذنوب کے لیے ناکافی خیال کیا۔ ان کے گمان کے مطابق بلند مراتب کے حصول کے لیے ایسے کٹھن اعمال ہونے چاہئیں جن کی ادائیگی میں تکلیف ومشقت اٹھانی پڑے۔ اس پر آپ نے تنبیہ فرمائی کہ شریعت میں دخل اندازی کی ضرورت نہیں بلکہ جو اور جیسا ارشاد ہو، اس پر اکتفا کیاجائے۔ 2۔ فرائض کی ادائیگی کے متعلق یہ حکم نہیں ہے کہ جتنا بوجھ اٹھاسکتا ہواتنا اٹھا لے کیونکہ فرائض اپنی جگہ شروع ہی سے انسانی طاقت سے زیادہ نہیں ہیں، البتہ نوافل کے متعلق یہ حکم ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق ادا کیے جائیں۔ استطاعت میں ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ ان پر تادم آخر عمل کیا جاسکے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "أَحَبُّالأعمالِإلىاللهِأدْومُها وإن قَلَّ" ’’اللہ کے نزدیک محبوب اعمال وہ ہیں جن میں دوام ہو، مقدار میں اگرچہ وہ کم ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1830(783)) 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے فرقہ کرامیہ کی تردید کرناچاہتے ہیں جن کاموقف ہے کہ ایمان صرف زبانی اقرار کا نام ہے، لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان معرفت رب کا نام ہے اور اس کا تعلق دل سے ہے۔ اس بناء پر محض زبانی اقرار کوایمان نہیں کہاجا سکتا۔ اس کے لیے معرفت قلبی بھی ضروری ہے، نیز اس سے ایمان کی کمی بیشی بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کا یہ فعل ہرجگہ یکساں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کی ایمانی کیفیت تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین بلکہ جملہ مخلوقات سے بڑھ کر تھی کیونکہ حدیث میں آپ کا خطاب صرف حاضرین میں سے نہیں بلکہ اس کا تعلق پورے عالم سے ہے جس میں دوسرے انبیاءکرام علیہ السلام اور ملائکہ عظام بھی شامل ہیں۔ (شرح الکرماني :113/1) 4۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو خیال ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو مغفور الذنب (بخشے بخشائے) ہیں، لہٰذا آپ کو زیادہ عمل کرنے کی ضرورت نہیں لیکن ہمیں اعمال میں بہت زیادہ محنت وریاضت کی ضرورت ہے۔ اس پر آپ نے غصے کے انداز میں فرمایا: ’’میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔ اور سب سے زیادہ اللہ کو جاننے والا ہوں۔ اس تقویٰ اور علم کا تقاضا ہے کہ ہمہ وقت کام میں لگا رہوں۔یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ مجھے عمل کی ضرورت نہیں۔مغفرت تو ادنیٰ درجہ ہے اس کے بعد اور بھی درجات ہیں جن کے حصول کی مجھے ضرورت ہے۔ 5۔ایسے وساوس سے جوخیالات دل میں آئیں اور استقرار کی بجائے نکل جائیں،ان پر مواخذہ نہیں ہوگا۔البتہ انھیں زبان پر لانے یا ان کے مطابق عمل کرنے پر مواخذہ ہوگا۔لیکن اس حدیث سے معلوم ہواکہ ایسے بُرے خیالات جو دل میں جم جائیں اور وہ عزم کی صورت اختیار کرلیں وہ قابل مواخذہ ہیں اگرچہ انھیں زبان پر نہ لایا جائے یا ان کے مطابق عمل نہ کیاجائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:(وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ) ’’مگر اس کی پکڑ اس چیز پر ہوگی جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘ (البقرہ 225/2۔وفتح الباری 97/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
20
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
20
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
20
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
20
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
ہر شخص کا ایمان اس کے علم اور معرفت کے بقدر ہوتا ہے۔جس قدر اللہ کی معرفت زیادہ ہوگی ،اسی قدر ایمان بھی قوی ہوگا اور جتنی معرفت میں کمزوری ہوگی اسی قدر ایمان بھی کمزور ہوگا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت اورآپ کا علم سب سے قوی تھی،اس بناء پر آپ کا ایمان بھی سب سے قوی تھا،لیکن بقول امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایمان تو قول وفعل سے عبارت ہے اور معرفت نہ قول ہے نہ فعل۔پھر اس میں کمی بیشی کیسے ہوگی؟اس اشکال کو دور کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ معرفت ،دل کا فعل ہے۔اس پر اعتراض ہوسکتا تھا کہ قول وفعل تو جوارح کاعمل ہے ہم دل کے فعل کے متعلق معلومات نہیں رکھتے،لہذا امام صاحب نے ایک آیت کا حوالہ دیا جس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فعل قلب پر مواخذہ فرمائے گا۔مذکورہ آیت میں صراحت کے ساتھ قلب کی طرف کسب کی نسبت کی گئی ہے جو فعل وعمل کے معنی میں ہے۔
اور اس بات کا ثبوت کہ «معرفت» دل کا فعل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ”لیکن (اللہ) گرفت کرے گا اس پر جو تمہارے دلوں نے کیا ہو گا۔“
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب صحابہ کرام ؓ کو حکم دیتے تو انھی کاموں کا حکم دیتے جن کو وہ بآسانی کر سکتے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارا حال آپ جیسا نہیں ہے۔ اللہ نے آپ کی اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمایا ہے۔ یہ سن کر آپ ﷺ اس قدر ناراض ہوئے کہ آپ کے چہرہ مبارک پر غصے کا اثر ظاہر ہوا، پھر آپ نے فرمایا: ’’میں تم سب سے زیادہ پرہیزگار اور اللہ کو جاننے والا ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے ناراض ہوئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ’’آسان کاموں‘‘ کو رفع درجات اور غفران ذنوب کے لیے ناکافی خیال کیا۔ ان کے گمان کے مطابق بلند مراتب کے حصول کے لیے ایسے کٹھن اعمال ہونے چاہئیں جن کی ادائیگی میں تکلیف ومشقت اٹھانی پڑے۔ اس پر آپ نے تنبیہ فرمائی کہ شریعت میں دخل اندازی کی ضرورت نہیں بلکہ جو اور جیسا ارشاد ہو، اس پر اکتفا کیاجائے۔ 2۔ فرائض کی ادائیگی کے متعلق یہ حکم نہیں ہے کہ جتنا بوجھ اٹھاسکتا ہواتنا اٹھا لے کیونکہ فرائض اپنی جگہ شروع ہی سے انسانی طاقت سے زیادہ نہیں ہیں، البتہ نوافل کے متعلق یہ حکم ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق ادا کیے جائیں۔ استطاعت میں ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ ان پر تادم آخر عمل کیا جاسکے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "أَحَبُّالأعمالِإلىاللهِأدْومُها وإن قَلَّ" ’’اللہ کے نزدیک محبوب اعمال وہ ہیں جن میں دوام ہو، مقدار میں اگرچہ وہ کم ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1830(783)) 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے فرقہ کرامیہ کی تردید کرناچاہتے ہیں جن کاموقف ہے کہ ایمان صرف زبانی اقرار کا نام ہے، لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان معرفت رب کا نام ہے اور اس کا تعلق دل سے ہے۔ اس بناء پر محض زبانی اقرار کوایمان نہیں کہاجا سکتا۔ اس کے لیے معرفت قلبی بھی ضروری ہے، نیز اس سے ایمان کی کمی بیشی بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کا یہ فعل ہرجگہ یکساں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کی ایمانی کیفیت تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین بلکہ جملہ مخلوقات سے بڑھ کر تھی کیونکہ حدیث میں آپ کا خطاب صرف حاضرین میں سے نہیں بلکہ اس کا تعلق پورے عالم سے ہے جس میں دوسرے انبیاءکرام علیہ السلام اور ملائکہ عظام بھی شامل ہیں۔ (شرح الکرماني :113/1) 4۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو خیال ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو مغفور الذنب (بخشے بخشائے) ہیں، لہٰذا آپ کو زیادہ عمل کرنے کی ضرورت نہیں لیکن ہمیں اعمال میں بہت زیادہ محنت وریاضت کی ضرورت ہے۔ اس پر آپ نے غصے کے انداز میں فرمایا: ’’میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔ اور سب سے زیادہ اللہ کو جاننے والا ہوں۔ اس تقویٰ اور علم کا تقاضا ہے کہ ہمہ وقت کام میں لگا رہوں۔یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ مجھے عمل کی ضرورت نہیں۔مغفرت تو ادنیٰ درجہ ہے اس کے بعد اور بھی درجات ہیں جن کے حصول کی مجھے ضرورت ہے۔ 5۔ایسے وساوس سے جوخیالات دل میں آئیں اور استقرار کی بجائے نکل جائیں،ان پر مواخذہ نہیں ہوگا۔البتہ انھیں زبان پر لانے یا ان کے مطابق عمل کرنے پر مواخذہ ہوگا۔لیکن اس حدیث سے معلوم ہواکہ ایسے بُرے خیالات جو دل میں جم جائیں اور وہ عزم کی صورت اختیار کرلیں وہ قابل مواخذہ ہیں اگرچہ انھیں زبان پر نہ لایا جائے یا ان کے مطابق عمل نہ کیاجائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:(وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ) ’’مگر اس کی پکڑ اس چیز پر ہوگی جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘ (البقرہ 225/2۔وفتح الباری 97/1)
ترجمۃ الباب:
اور اس بات کا ثبوت کہ معرفت دل کا فعل ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "اس کی پکڑ اس چیز پر ہو گی جو تمہارے دلوں کا فعل ہے۔"
حدیث ترجمہ:
یہ حدیث ہم سے محمد بن سلام نے بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ انھیں اس کی عبدہ نے خبر دی، وہ ہشام سے نقل کرتے ہیں، ہشام حضرت عائشہ ؓ سے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کو کسی کام کا حکم دیتے تو وہ ایسا ہی کام ہوتا جس کے کرنے کی لوگوں میں طاقت ہوتی (اس پر) صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ تو آپ جیسے نہیں ہیں (آپ تو معصوم ہیں) اور آپ کی اللہ پاک نے اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف فر دی ہیں۔ (اس لیے ہمیں اپنے سے کچھ زیادہ عبادت کرنے کا حکم فرمائیں) (یہ سن کر) آپ ناراض ہوئے حتیٰ کہ خفگی آپ کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہونے لگی۔ پھر فرمایا: ’’بے شک میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ اسے جانتا ہوں۔ (پس تم مجھ سے بڑھ کر عبادت نہیں کر سکتے)
حدیث حاشیہ:
اس باب کے تحت بھی امام بخاری یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کا یہ فعل ہرجگہ یکساں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ کے قلب کی ایمانی کیفیت تمام صحابہ ؓ اور ساری مخلوقات سے بڑھ کر تھی۔ یہاں حضرت امام بخاری مرجیہ کے ساتھ کرامیہ کے قول کا بطلان بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں جوکہتے ہیں کہ ایمان صرف قول کا نام ہے اور یہ حدیث ایمان کی کمی وزیادتی کے لیے بھی دلیل ہے۔ آنحضرت ﷺ کے فرمان «أنا أعلمكم بالله» سے ظاہر ہے کہ علم باللہ کے درجات ہیں اور اس بارے میں لوگ ایک دوسرے سے کم زیادہ ہوسکتے ہیں اور آنحضرت ﷺ اس معاملہ میں جمیع صحابہ ؓ بلکہ تمام انسانوں سے بڑھ چڑھ کر حیثیت رکھتے ہیں۔ بعض صحابی آپ سے بڑھ کر عبادت کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے اس خیال کی تغلیط میں فرمایا کہ تمہارا یہ خیال صحیح نہیں۔ تم کتنی ہی عبادت کرومگرمجھ سے نہیں بڑھ سکتے ہو اس لیے کہ معرفت خداوندی تم سب سے زیادہ مجھ ہی کو حاصل ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت میں میانہ روی ہی خدا کو پسند ہے۔ ایسی عبادت جو طاقت سے زیادہ ہو، اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان معرفت رب کا نام ہے اور معرفت کا تعلق دل سے ہے۔ اس لیے ایمان محض زبانی اقرار کو نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے لیے معرفت قلب بھی ضروری ہے اور ایمان کی کمی وبیشی بھی ثابت ہوئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Whenever Allah's Apostle (ﷺ) ordered the Muslims to do something, he used to order them deeds which were easy for them to do, (according to their strength endurance). They said, "O Allah's Apostle (ﷺ) !We are not like you. Allah has forgiven your past and future sins." So Allah's Apostle (ﷺ) became angry and it was apparent on his face. He said, "I am the most Allah fearing, and know Allah better than all of you do".