باب:اس بارے میں کہ بے وقت نماز پڑھنا ‘نماز کو ضائع کرنا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Not offering As-Salat (the prayers) at its stated fixed time)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
536.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جو باتیں نبی ﷺ کے عہد مبارک میں تھیں، ان میں سے اب میں کوئی بات نہیں پاتا۔ عرض کیا گیا: نماز تو باقی ہے؟ حضرت انس ؓ نے فرمایا: اس (نماز) کا جو حال تم نے کر رکھا ہے وہ تمہیں معلوم ہے۔
تشریح:
اس حدیث میں اختصار ہے۔ تفصیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓ کا مذکورہ ارشاد نمازوں کو بے وقت پڑھنے سے متعلق ہے، چنانچہ ابو رافع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں آج ان چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو بھی محفوظ نہیں پاتا جو رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں تھیں۔ ابو رافع نے کہا: اے ابو حمزہ! نماز بھی باقی نہیں ہے؟ حضرت انس ؓ نے جواب دیا: کیا تمھیں معلوم نہیں کہ حجاج بن یوسف نے نماز کا کیا حال کر رکھا ہے؟ (مسند أحمد: 208/3) اس روایت کی مزید تفصیل طبقات ابن سعد میں ہے۔ حضرت ثابت بنانی بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ حضرت انس ؓ کے ساتھ تھے کہ حجاج بن یوسف نے نماز کو مؤخر کر کے پڑھا۔ حضرت انس ؓ کھڑے ہوئے تاکہ اس سلسلے میں اسے تنبیہ کی جائے، لیکن آپ کے متعلقین نے آپ کو بات کرنے سے روک دیا۔ آپ وہاں سے نکل آئے اور راستے میں اپنے ساتھیوں سے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اب رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کی کوئی بات نظر نہیں آتی، ہاں! ظاہری طور پر شہادتین کا اقرار ضرور موجود ہے۔ ایک آدمی نے کہا: نماز کا اہتمام تو باقی ہے؟ آپ نے فرمایا: تم نے نماز ظہر کو مغرب کے وقت پہنچا دیا ہے۔ کیا رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نماز کا یہ حال تھا؟ (فتح الباري:19/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
525
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
529
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
529
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
529
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
نماز کو بروقت ادا کرنے کی فضیلت اور اس کے کفارۂ سیئات ہو نے کی شان بیان کرنے کے بعد اس کے برعکس دوسری صورت کو بیان کیا جارہاہے کہ نماز کو بے وقت ادا کرنا اس قدر سنگین جرم ہے کہ ایسی نماز انعام و کرام کے بجائے نمازی کے لیے باز پرس کا باعث ہو گی،نیز اس سے مراد نماز کو وقت مستحب سے مؤخر کردینا نہیں بلکہ بعد از وقت ادا کرنا ہے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جو باتیں نبی ﷺ کے عہد مبارک میں تھیں، ان میں سے اب میں کوئی بات نہیں پاتا۔ عرض کیا گیا: نماز تو باقی ہے؟ حضرت انس ؓ نے فرمایا: اس (نماز) کا جو حال تم نے کر رکھا ہے وہ تمہیں معلوم ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں اختصار ہے۔ تفصیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓ کا مذکورہ ارشاد نمازوں کو بے وقت پڑھنے سے متعلق ہے، چنانچہ ابو رافع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں آج ان چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو بھی محفوظ نہیں پاتا جو رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں تھیں۔ ابو رافع نے کہا: اے ابو حمزہ! نماز بھی باقی نہیں ہے؟ حضرت انس ؓ نے جواب دیا: کیا تمھیں معلوم نہیں کہ حجاج بن یوسف نے نماز کا کیا حال کر رکھا ہے؟ (مسند أحمد: 208/3) اس روایت کی مزید تفصیل طبقات ابن سعد میں ہے۔ حضرت ثابت بنانی بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ حضرت انس ؓ کے ساتھ تھے کہ حجاج بن یوسف نے نماز کو مؤخر کر کے پڑھا۔ حضرت انس ؓ کھڑے ہوئے تاکہ اس سلسلے میں اسے تنبیہ کی جائے، لیکن آپ کے متعلقین نے آپ کو بات کرنے سے روک دیا۔ آپ وہاں سے نکل آئے اور راستے میں اپنے ساتھیوں سے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اب رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کی کوئی بات نظر نہیں آتی، ہاں! ظاہری طور پر شہادتین کا اقرار ضرور موجود ہے۔ ایک آدمی نے کہا: نماز کا اہتمام تو باقی ہے؟ آپ نے فرمایا: تم نے نماز ظہر کو مغرب کے وقت پہنچا دیا ہے۔ کیا رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نماز کا یہ حال تھا؟ (فتح الباري:19/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے مہدی بن میمون نے غیلان بن جریر کے واسطہ سے، انھوں نے حضرت انس ؓ سے، آپ نے فرمایا کہ نبی ﷺ کے عہد کی کوئی بات اس زمانہ میں نہیں پاتا۔ لوگوں نے کہا، نماز تو ہے۔ فرمایا اس کے اندر بھی تم نے کر رکھا ہے جو کر رکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ghailan (RA): Anas (RA) said, "I do not find (now-a-days) things as they were (practiced) at the time of the Prophet." Somebody said "The prayer (is as it was.)" Anas (RA) said, "Have you not done in the prayer what you have done?